مرد وہ ہے

2  دسمبر‬‮  2016

جب حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ہوئی اس وقت خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوچکے تھے۔ اور حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی تقریباً بیس سال تک بعد نماز عشاء روزانہ حضرت بایزید بسطامی کی مزار اقدس پر پہنچ کر یہ دعا کرتے کہ ”یا اللہ جو مرتبہ تونے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو عطا کیا ہے وہی مجھے بھی عطا فرمادے“ اس دعا کے بعد خرقان واپس آکر نماز فجر ادا کرتے،

اور آپ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ بسطام سے اس نیت سے الٹ پاؤں واپس ہوتے کہ کہیں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی مزار کی بے ادبی نہ ہوجائے۔ اسی طرح بارہ سال گذر گئے لیکن اپنے معمول کو نہیں چھوڑا۔ایک رات آپ نے حضرت بایزید بسطامی کی مزار سے آواز سنی کہ اے ابوالحسن اب تیرا بھی دور آگیا۔ خواجہ ابوالحسن خرقانی نے عرض کیا ”میں تو قطعی امی ہوں امی ہونے کی وجہ سے علم شرعیہ سے ناواقف ہوں اس لیے میری ہمت افزائی فرمائیے۔“ ندا آئی کہ ”مجھے جو کچھ مرتبہ حاصل ہوا ہے وہ صرف تمہاری بدولت حاصل ہوا ہے۔“ خواجہ ابو الحسن خرقانی نے جواب دیا”آپ تو مجھ سے کئی سال پہلے رخصت ہوچکے ہیں“ قبر سے آواز آئی کہ ”یہ قول تمہارا درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی میں سرزمین خرقان سے گذرتا تھا تو اس سرزمین پر آسمان تک نور ہی نور نظر آتا تھا اور میں اپنی ایک ضرورت کے تحت تیس سال تک دعا کرتا رہا لیکن قبول نہ ہوئی اور مجھ کو یہ حکم دیا گیا کہ ”تو اس نور کو ہماری بارگاہ میں شفیع بناکر پیش کر تو تمہاری دعا قبول کرلی جائے گی۔“ چنانچہ اس حکم پر عمل ہونے سے دعا قبول ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد جب ابوالحسن خرقانی خرقان واپس ہوئے تو صرف 24 یوم میں مکمل قرآن کریم ختم کرلیا۔

لیکن بعض روایات میں ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے ندا آئی کہ سورۃ فاتحہ سے شروع کرو اور جب آپ نے شروع کی تو خرقان پہنچنے تک پورا قرآن ختم کرلیا۔۔ ایک مرتبہ آپ اپنے باغ کی کھدائی کر رہے تھے تو وہاں سے چاندی برآمد ہوئی تو آپ نے اس جگہ کو بند کردیا اوردوسری جگہ سے کھدائی شروع کردی تو وہاں سے سونا برآمد ہوا پھر تیسری جگہ سے مرویدار ظاہر ہوا

اور چوتھی جگہ سے جواہرات برآمد ہوئے۔ لیکن آپ نے کسی کو بھی ہاتھ نہیں لگایا اور فرمایا کہ ”ابوالحسن ان چیزوں پر فریفتہ نہیں ہوسکتا یہ تو کیا اگر دین و دنیا بھی مہیا ہوجائیں تب بھی وہ انحراف نہیں کرسکتا۔“ ہل چلاتے وقت جب نماز کا وقت آجاتا تو بیلوں کو چھوڑکر نماز ادا کرتے اور جب نماز پڑھ کر کھیت پر پہنچتے تھے زمیں تیار ملتی۔۔ ایک دفعہ شیخ المشائخ حضرت ابوالعمر ابوالعباس نے آپ سے کہا کہ ”چلو میں اور تم درخت پر چڑھ کر چھلانگ لگائیں۔“

آپ نے فرمایا کہ چلئے میں اور تم فردوس و جہنم سے بے نیاز ہوکر خدا تعالیٰ کا دست کرم پکڑ کر چھلانگ لگائیں۔ پھر ایک مرتبہ شیخ المشائخ نے پانی میں ہاتھ ڈال کر زندہ مچھلی پکڑ کر آپ کے سامنے رکھ دی۔ اس کے جواب میں خواجہ ابوالحسن خرقانی نے تنور میں ہاتھ ڈال کر زندہ مچھلی آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ”آگ میں سے زندہ مچھلی پکڑ کر نکالنا پانی میں سے مچھلی نکالنے سے کہیں زیادہ معنی خیز ہے۔“

شیخ المشائخ فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے خوف کی وجہ سے مجھے بیس سال تک نیند نہیں آئی اور جس مقام پر میں پہنچتا ہوں انہیں اپنے سے چار قدم آگے ہی پاتا ہوں۔ اور اس مرتبہ اس کی کوشش کی کہ کسی طرح میں ان سے قبل حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر پہنچ جاؤں لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو وہ طاقت عطا کی ہے کہ

تین میل کا راستہ لمحہ بھر میں طے کرکے بسطام پہنچ جاتا ہے۔ایک مرتبہ کوئی جماعت کسی مشکل راستے پر سفر کرنا چاہتی تھی، لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ جب کوئی مصیبت پیش آئے تو ہم کیا کریں دعا بتادیجیے۔ آپ نے فرمایا جب کوئی مصیبت آئے تو میرا نام پکارنا۔ لیکن لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنا سفر شروع کردیا۔ راستے میں ان لوگوں کو ڈاکوؤں نے گھیرلیا۔ ایک شخص نے اپنے دل میں خواجہ ابوالحسن خرقانی کا نام لیا

جس کے نتیجے میں وہ شخص اپنے مال اسباب سمیت لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا یہ دیکھ کر ڈاکوؤں کو بہت تعجب ہوا مگر جن شخصوں نے آپ کا نام نہیں لیا وہ سب لٹ گئے۔پھر ڈاکوؤں کی واپسی کے بعد وہ شخص سب کی نظروں کے سامنے آگیا۔ اور جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا تھا تو اس نے کہا میں نے سچے دل سے شیخ کو یاد کیا اور خرقانی نے اپنی قدرت سے مجھے سب کی نگاہوں سے چھپادیا۔

جب یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا تم لوگ خدا تعالیٰ کو فقط زبان سے یاد کرتے ہو لیکن میں اللہ تعالیٰ کو خلوص قلب سے یاد کرتا ہوں اور جو مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے لیے خدا تعالیٰ کو دل سے یاد کروں گا۔آپ فرماتے تھے نماز ہر کوئی پڑھتا ہے لیکن مرد وہ ہے جس کے لیے کراما کاتبین ساٹھ سال تک کوئی برائی نہ لکھ سکیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے شرمندہ ہوجائے۔آپ فرماتے تھے

چالیس برس ہوگئے ہیں میں نے اپنے لیے روٹی تیار نہیں کی ہے لیکن مہمانوں کے لیے تیار کرتا ہوں۔آپ نے فرمایا ستر برس ہوگئے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کا بن گیا ہوں اور کبھی نفس کی مراد پوری نہیں کی۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…