حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اﷲ علیہ مریدوں اور خدمت گاروں کے درمیان تشریف فرما تھے۔ آپ کے رعب و جلال کا یہ عالم ہوتا کہ لوگ دو زانو اور دست بستہ بیٹھے رہتے تھے۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوتی تھیں اور کبھی کبھی اس قدر سکوت ہوتا تھا کہ حاضرین مجلس کی سانسوں کی آواز تک سنائی نہیں دیتی تھی۔ ایک دن ایک قلندر حضرت بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ کی بارگاہ جلال میں حاضر ہوا۔ اس وقت بھی حاضرین کی یہی کیفیت تھی۔ اگر نیا آنے والا یہ منظر دیکھتا تو یہی تاثر قبول کرتا کہ وہ کسی باجبروت شہنشاہ کے دربار میں داخل ہوگیا ہے۔
قلندر نے خانقاہ میں داخل ہوتے ہی حاضرین پر ایک نظر ڈالی اور نہایت گستاخانہ لہجے میں حضرت شیخ سے مخاطب ہوا ’’فرید! یہ کیا تماشا ہے؟‘‘اگرچہ قلندر کی آواز نہایت کرخت تھی لیکن حضرت بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی روایتی شیریں کلامی کے ساتھ فرمایا ’’مہمان! تم کس تماشے کی بات کررہے ہو؟‘‘’’یہی کہ تونے اپنے آپ کو بت بناڈالا ہے اور لوگوں سے اپنی پرستش کراتا ہے‘‘ اس بار بھی قلندر کے لہجے میں گستاخی کا وہی رنگ نمایاں تھا۔’’میں تو ایک بندہ عاجز ہوں۔ جو کچھ بنایا ہے، خدا نے بنایا ہے‘‘ قلندر کے سوال کے جواب میں حضرت بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا۔’’نہیں! تونے خود اپنے آپ کو بت بنایا ہے‘‘ قلندر کے لہجے کی کرختگی کا وہی عالم تھا۔’’ہرگز نہیں۔۔۔‘‘ حضرت بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ نے کمال انکسار کے ساتھ فرمایا ’’دنیا کا کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ نہیں بناسکتا مگر حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے سرفراز کردیتا ہے‘‘قلندر نے ایک نظر حضرت بابا فرید رحمتہ اﷲ علیہ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر کھڑا رہا اور پھر باآواز بلند کہنے لگا ’’شیخ! آپ کے صبروتحمل پر ہزار آفرین۔ جب تک دنیا باقی ہے، یہ تحمل باعزت رہے‘‘ یہ کہہ کر وہ قلندر چلا گیا۔
اہل نظر کا خیال ہے کہ وہ قلندر مردان غیب میں سے تھا۔ آٹھ صدیاں گزر گئیں مگر وہ تحمل آج بھی باعزت ہے اور اس عزت میں قیامت تک اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔