محشر کے میدان میں ایک آدمی کی ایک نیکی کم پڑ جائے گی تو اللہ فرمائیں گے .ایک نیکی لے آ تجھے معاف کر دوں گا.وہ سوچتا ہے چلو ایک نیکی تو مل جائے گی.وہ سب سے پہلے اپنی ماں کے پاس جائے گا۔۔ماں ایک نیکی تو دےماں انکار کر دے گی ۔۔نہیں آج نہیں.
آج تو مجھے بھی سخت ضرورت ہے.
وہ باپ کے پاس جائے گا۔۔باپ سے نیکی کا مطالبہ کرے گا۔باپ بھی انکار کر دے گاغرض یہ ہے کہ وہ سب رشتہ داروں کے پاس جائے گا کوئی اسے نیکی نہیں دے گاوہ حسرت اور سے ایک آہبھرے گا کہ ” ہائے! ایک نیکی کی کمی نے ڈبو دیا۔”اس کی ہائے سن کر ایک بندہ اس سے پوچھتا ہے”بھائی ! کیا ماجرہ ہے یہ حسرت بھری ہائے کیوں کی؟”میری ایک نیکی کم پڑ گئی ہے میرے حق میں دوزخ کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔”
.
وہ شخص جواب دے”تمہارا کام بن گیا۔”دوسرا آدمی جواب دے گا
“کیسے بن گیا”پہلے آدمی نے پوچھا”میرے پاس ایک ہی نیکی ہے میرے کسی کام کی نہیں کیوں کہ وہ نیکی ہو یا نہ ہو میرے حق میں دوزخ کا فیصلہ ہو چکا ہے میں وہ نیکی تجھے دیتا ہوں۔”
دوسرے شخص کا یہ کہنا تھا کہ پہلا شخص خوشی سے قلقاریاں مارتا ہوا اللہ کے پاس آئے گا” یا اللہ نیکی مل گئی یا اللہ نیکی مل گئی۔””کہاں سے مل گئی آج تو ماں بھی نے نہیں دے رہی۔”اللہ پاک سب کچھ جانتے ہوئے پوچھیں گے.
“ایک شخص کی ایک ہی نیکی تھی اس نے مجھے اپنی نیکی دے دی۔”اسے بلا کر لاو۔۔۔دونوں اشخاص اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں”ہاں بھئی! کیوں نیکی دی اسے۔ ۔؟” آج تو ماں اپنی اولاد کو ایک نیکی نہیں دے رہی، تم نے کیوں دی۔ ۔ ؟؟یااللہ ! میری ایک ہی نیکی تھی مجھ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا لہذا سوچا اس شخص کو تو فائدہ ہو جائے اس کے حق میں جنت کافیصلہ ہو جائے۔”اچھا! آج کے دن تو مجھ سے زیادہ سخی بن رہا ہے ،،،آج کے دن مجھ سے زیادہ سخی کوئی نہیں۔۔جاؤ تم دونوں کے لیئے جنت کا فیصلہ کرتا ہوں۔
.
مولانا طارق جمیل صاحب کے ایک بیان سے اقتباس!!