عشق یہ تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتقال کے بعد اذان دینی چھوڑ دی.عشق یہ تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نے نبی صلى اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ میں رہنا ہی چھوڑ دیا کہ اب ان کا مدینہ میں دل نہیں لگتا ہے کہ ہر کوچے اور در و دیوار سے محبوب کی یادیں جڑی تھی. اور نبی کریم کا فراق برداشت نہیں ہوتا تھا.عشق یہ تھا کہ جب بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے محبوب کو خواب میں دیکھا
جو ان سے فرما رہے تھے کہ “اے بلال، ہم سے اتنی دوری کیوں؟” جب آپ کو روضہ اطہر کی زیارت کئے زیادہ وقت بیت گیا تھا، تو جاگتے ہی فوراً مدینہ کی جانب رخت سفر باندھا.عشق یہ تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ آدھی رات کو پہنچے، تو امام حسن و حسین رضى اللہ عنہ نے انھیں مقام نبی صلى اللہ علیہ والہ وسلم پر پایا کہ آپ زار و قطار رو رہے تھے.عشق یہ تھا کہ جب امام حسن و حسین رضى اللہ عنہ نے ان سے فجر کی اذان دینے کی فرمائش کی، تو اپنے محبوب کے چہیتے نواسوں کو انکار نہ کر سکے. اور جب اذان دی تو اذان کیا دی کہ نبی کریم کا پورا زمانہ دوبارہ زندہ کر دیا. صحابہ امڈ پڑے. زار و قطار روتے، غم سے نڈھال، نبی کی یاد سے چور، سارا غم دوبارہ تازہ ہو گیا. سارے زخم ہرے ہو گئے.عشق یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر جب بلال رضى اللہ عنہ نے شام میں فوج کو اذان دی، تو “اشھد انا محمد الرسول للہ” کہتے ہوئے آواز گھگیا گئی ، آواز گلے میں پھنس گئی. نبی کی یاد میں یوں زار و قطار رو دئیے کہ جھڑی لگ گئی. اذان مکمل نہ کر سکے. خود بھی روئے اور سب کو رلا دیا، جبکہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ جذباتی ہوئے.عشق یہ تھا کہ جب بلال رض بستر مرگ پر تھے، اجل آیا چاہتا تھا. رشتہ دار دیکھ کر رو رہے تھے. اور بلال کہہ رہے تھے، ” کل میں اپنے محبوبوں سے ملو گا، محمد ص اور اس کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے”