اسلام آباد( این این آئی)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سپریم کورٹ میںپنجاب انتخابات فنڈ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عیدالاضحی کے بعد قومی انتخابات کی تجویز دی ہے۔عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اکتوبر کو پورے ملک میںجبکہ پی ٹی آئی صوبوں میں مئی میں انتخابات چاہتی ہے ،
دونوں اطراف کو اپنے موقف لچک پیدا کرنا ہوگی ۔انہوںنے واضح کیا جماعت اسلامی مذاکرات میں کسی فریق کے ساتھ نہیں ،عوام اور آئین کے ساتھ ہے۔ ہمارا مسئلہ جماعتوں کے اندر یا آپسی لڑائی سے نہیں بلکہ قومی انتخابات کے لیے سب کو راضی کرنا ہے۔ دو صوبوں میں انتخابات سے نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا ، افراتفری بڑھے گی۔ اسی طرح عوام کو قومی انتخابات کے لیے پرامن ماحول مہیا کرنا اور الیکشن کو شفاف بنانا بھی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے ، بغیر اتفاق رائے سے الیکشن ہوئے تو پوری مشق پرلگ بھگ71 ارب ضائع ہوتے نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے درمیان مذاکرات کروانے کی صدق دل سے کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے اپنی مرضی سے دو اسمبلیاں تحلیل کیں ، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بھی پنجاب میں الیکشن90 دن کی بجائے 105دنوں میںہوںگے، کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا ، چیف جسٹس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا موقع دیں۔ امیرجماعت نے کہا کہ ملک کسی سیاسی جماعت ، لیڈر یا ادارے نہیں بلکہ 23 کروڑ عوام کی خواہش پر چلے گا۔ سیاسی افراتفری نے معاشی اور آئینی بحرانوں کو جنم دیا جس کے براہ راست متاثرین غریب عوام ہیں جو آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے لائنوں میں کھڑے ہیں، عید آرہی ہے مگر لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹیں غائب ہیں۔ آئین پاکستان ہماری مشترکہ میراث ہے ،
سیاسی جماعتوں کو قومی انتخابات پراتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے آئین کی پاسداری کرنا ہوگی، سیاست اور جمہوریت میں ایک دوسرے کی سنی جاتی ہے، آمریت میں خواہشات چلتی ہیں۔ جماعت اسلامی نیک مقصد کے تحت سیاسی پارٹیوں کو مذاکرات کی میز پر اکٹھا کررہی ہے ، اب تک کی ملاقاتوں میں تمام اطراف سے مثبت اشارے ملے ہیں۔ چیف جسٹس سیاستدانوں کو مذاکرات کا موقع فراہم کریں
اور سرخرو ہوں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن پوری قوم کا مسئلہ ہے ، وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ان سے ملاقاتوں میں اعتراف کیا کہ حالات خراب ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاست ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہوچکی ہے، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی لڑائیوں میں اتنے فاصلے پیدا ہوگئے ہیں کہ پولرائزیشن خطرناک صورتحال اختیار کرچکی ہے۔ سراج الحق نے ایک دفعہ پھر جماعت اسلامی کے دیرینہ موقف کو دہرایا کہ پورے ملک میں بیک وقت انتخابات مسائل کا حل ہیں ،
سیاسی جماعتوں کو اس مقصد کے حصول کے ٹیبل پر آنا ہوگا ، جماعت اسلامی چاہتی ہے اسٹیبلشمنٹ قوم سے وعدہ کی روشنی میں غیرجانبدار رہے ، عدالت اور الیکشن کمیشن بھی سیاست میں دلچسپی نہ لیں ، سیاستدانوں کو موقع دیا جائے کہ وہ مسئلہ کا حل نکالیں۔امیر جماعت نے روسٹرم پر گفتگو کرتے ہوئے قوم کی جانب سے عدالت کا شکریہ ادا کیا اور اس امر کی بھی تحسین کی کہ چیف جسٹس نے انہیں قومی نوعیت کے اہم ترین مسئلہ پر موقف پیش کرنے کے لیے بلایا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی سے بنچ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو،
یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے، آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور آئین ہی ملک کو بچا سکتا ہے۔ آئین کی حفاظت ملک کی حفاظت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا تب سعودی اور امریکی سفیروں نے مذاکرات کی کوشش کی تھی، مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا، 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی کی لڑائی سے مارشل لاء لگا۔ آج ہمیں ایک بار پھر اسی منظر نامے کا سامنا ہے اور حالات ماضی سے بھی بدتر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں اور دوست ممالک کی اب پاکستان میں پہلے کی طرح دلچسپیاں نہیں رہیں ، سب کی اپنی ترجیحات ہیں ، دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہورہا ہے ، ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے۔چیف جسٹس نے امیر جماعت کے موقف کو سننے کے بعد ان کی مسئلہ کے حل کے لیے کوششوں کی تحسین کی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔