اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے ساتھ مذاکرات آخری مراحل میں ہے،جلد ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاجائیں گے،قوم کی نظریں مخلوط حکومت پر ہیں،مشکلات سے نکلنے کے لیے سیاسی حکومت اور اداروں کو ملکر کام کرنا ہوگا، قوم کڑے امتحان اور چیلنج سے گزر رہی ہے
اس لیے ہم سب کو مل کر کفایت شعاری کرنی چاہیے،بیرونی سفر کیلئے اکانومی کلاس میں جانا پڑا تو اسے ترجیح دیں گے۔ وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ توقع ہے کہ جلد ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاجائیں گے اور اس کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تقریبا تمام شرائط پوری کرلی ہیں جس میں آئی ایم ایف نے کچھ سبسڈیز ختم کرنے کو کہا ہے اور کہا گیا ہے کہ غریب کو سبسڈی دیں۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں غریب طبقے نے ہمشیہ قربانی دی ہے، 1965 کی جنگ میں مالی معاملات میں مشکل آئی تو غریب آدمی نے قربانی دی اور اگر زلزلے، سیلاب آئے تو غریب آدمی اور یتیم لوگوں کی زندگی تنگ ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ اشرافیہ اور حکومتوں نے وہ حصہ نہیں ڈالا جو ان کو دینا چاہیے تھا جس کی وجہ سے آج تک صرف غریب لوگ ہی پستے آرہے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ غریب آدمی علاج کرانے کے لیے بھی پریشان ہوتا ہے اور جس دور میں علاج مفت ہوا اس کے بعد آنے والے دور میں مفت علاج ختم کردیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے بتایا ہے آئی ایم ایف سے کم آمدنی والے لوگوں کیلئے بھی 40 ارب روپے منظور ہوئے ہیں جو ان پر خرچ ہوں گے جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مشکلات سے نکلنے کے لیے سیاسی حکومت اور اداروں کو ملکر کام کرنا ہوگا۔
قبل ازیں کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کفایت شعاری کے لیے ہمارے مشترکہ اقدام سے غریب شخص کو یہ احساس ضرور ہوگا کہ آج سیاستدان اور بیوروکریٹ صرف دکھانے کے لیے نہیں مگر دل سے کفایت شعاری، سادگی اور تنگی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ قوم کڑے امتحان اور چیلنج سے گزر رہی ہے
اس لیے ہم سب کو مل کر کفایت شعاری کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ وقت ہم سے پکار پکار کر کفایت شعاری، سادگی، قربانی اور ایثار کے جذبے کی تقاضا کر رہا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہر دور کی مشکلات میں نہ چاہتے ہوئے بھی غریب نے قربانی دی ہے، غریب مہنگائی میں پسا، بچوں کو ایک وقت کی روٹی دینے پر مجبور ہوا اور غریب شخص عید جیسے مواقع پر دوائی اور دودھ کے پیسوں سے بچوں کے لیے کپڑے خریدنے پر مجبور تھا۔
انہوں نے کہا کہ صاحب حیثیت لوگوں نے یقینا غریب لوگوں کی مدد میں اپنا حصہ ڈالا ہے مگر یہ سوالیہ نشان ہے کہ کیا سب نے اپنا حصہ ڈالا یا نہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں رہنے کے بجائے ماضی سے سبق حاصل کرکے آج آگے بڑھنے کا فیصلہ کرنا ہے کیونکہ آج قوم کی توقع ہم سے اور قومی ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ قوم کی نظریں مخلوط حکومت پر ہیں، یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ مخلوط حکومت انتہائی کڑے امتحان میں فیصلے کر رہی ہے
اور ملک کو اپنی سمت پر لانے کے لیے پوری توانائی سے کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے لیے آج عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ چاہے کوئی وزیر، مشیر، معاون خصوصی ہو، چاہے کوئی بیوروکریٹ یا حکومتی عہدیدار ہو ہم سب کو پہلے اس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، پھر ہم اشرافیہ اور صاحب حیثیت لوگوں سے قربانی کی توقع کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج ہمیں چیلنج قبول کرنے کے لیے کھڑا ہونا ہوگا تاکہ دنیا کو بھی بتائیں کہ پاکستانی قوم توانا قوم ہے
اور پاکستانی حکومت ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہر قدم کو بروئے کار لائے گی اور کسی بھی قدم کو اٹھانے میں تعطل کا شکار نہیں ہوگی۔انہوں نے کابینہ کے شرکا سے مخطاب ہوکر کہا کہ یقینا آج کفایت شعاری کی جو پریزینٹیشن پیش کی جارہی ہے وہ عام آدمی یا یتیم انسان کو خوش نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کے لیے مہنگائی کو کم سکے گی مگر اس کے اندر 75 برس سے ملک میں جو کچھ ہوتا رہا اس سے اس کا غصہ کم ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے مشترکہ اقدام سے غریب شخص یہ احساس ضرور ہوگا کہ
آج سیاستدان اور بیوروکریٹ صرف دکھانے کے لیے نہیں مگر دل سے کفایت شعاری، سادگی اور تنگی برداش کرنے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ غریب آدمی کی تنگی یہ کہ اس کے پاس سو روپے ہو اور اسے یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ اپنی بیمار ماں کے لیے دوائی لے یہ بچوں کی کتابیں خریدے مگر اس تناظر میں ہمارے لیے تنگی یہ ہوگی کہ اگر ہمیں سرکاری طور پر باہر جانے کے لیے فرسٹ کلاس یا بزنس کلاس سفر کی اجازت ہے تو ہمیں اگر اکانومی کلاس میں جانا پڑے گا تو اسے ترجیح دیں گے لیکن غریب کو درپیش تنگی اور اس کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ آج وقت ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے کھڑے ہوں اور اللہ اور پاکستان کے نام پر کفایت شعاری کرکے دکھائیں۔