اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم شہباز شریف جلد ہی کفایت شعاری کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا اعلان کریں گے جن میں سرکاری اداروں کے بجٹ میں کمی، سرکاری ملازمین، کابینہ اور پارلیمنٹ کے ارکان کی مراعات اور سہولتوں بشمول پرتعیش گاڑیوں اور سیکورٹی پروٹوکولز میں کٹوتی شامل ہے۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق باخبر ذرائع
کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے چیف جسٹس پاکستان اور عدلیہ سے درخواست کی جائے گی کہ وہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں، جوڈیشل افسران اور ملازمین کے اخراجات سمیت مجموعی عدلیہ کے اخراجات میں کٹوتی کرکے کفایت شعاری میں حصہ ڈالیں۔ توقع ہے کہ ججز اپنی زیادہ سے زیادہ پنشن کو پانچ لاکھ روپے ماہانہ تک محدود کریں گے ساتھ ہی حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں کی مراعات اور سہولتوں پر بھی نظرثانی کی جائے گی۔ غیر جنگی نوعیت (نان کمبیٹ) کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے وزارت خزانہ اور وزارت دفاع اپنی اپنی سفارشات تیار کر رہی ہیں، اور ان کے حوالے سے بھی وزیراعظم اعلان کریں گے۔ ججوں اور بیوروکریٹس کو صرف ایک پلاٹ دیا جائے گا جبکہ جنرل مشرف کے دور میں ججوں اور سینئر بیوروکریٹس کو دیے جانے والے پرائم منسٹر پیکیج (جس میں اسلام آباد میں دوسرا پلاٹ دینے کی سہولت بھی شامل تھی) ختم کیا جائے گا۔
معلوم ہوا ہےکہ وزیراعظم اپنی 85؍ رکنی کابینہ کا حجم کم کرکے اسے 30؍ تک نہیں لائیں گے لیکن وہ ممکنہ طور پر اعلان کر سکتے ہیں کہ آدھی کابینہ حکومت سے تنخواہ یا سہولتیں نہیں لے گی۔ باقی کابینہ ارکان کی تنخواہوں میں 15؍ فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ کابینہ ارکان کو دی جانے والی لگژری گاڑیاں (شاہی سواریاں) واپس لی جائیں گی جبکہ وزراء کو صرف ایک سیکورٹی گاڑی ملے گی۔
وزراء اور سرکاری عہدیدار اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔ غیر ملکی دوروں میں وزیر کے ساتھ معاون اسٹاف ساتھ نہیں جائے گا۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 15؍ فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ سرکاری ملازمین کے ایگزیکٹو الائونس میں 25؍ فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ کسی سرکاری ملازم کو سیکورٹی گاڑی نہیں دی جائے گی اور اگر کسی کو اس کی ضرورت ہے تو وزارت داخلہ انفرادی معاملے کے طور پر اس کا فیصلہ کرے گی۔
وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری ملازمین صرف لازمی غیر ملکی دورہ کر پائیں گے اور اس کیلئے بھی صرف اکانومی کلاس سے سفر کی اجازت ہوگی۔ وزیروں، ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری ملازمین کو صرف ضروری غیر ملکی سفر کی اجازت ہوگی اور اس کیلئے بھی انہیں اکانومی کلاس میں سفر کرنا ہوگا۔ تمام وفاقی وزارتوں، ڈویژنوں، سرکاری محکموں اور اداروں کا بجٹ 15؍ فیصد کم کیا جائے گا۔
بیرون ممالک میں پاکستانی مشنز اور سفارت خانوں کا بجٹ بھی 15؍ فیصد کم کیا جائے گا۔ نئی گاڑیوں اور چیزوں کی خریداری پر مکمل پابندی ہوگی۔ 20؍ اور اس سے زیادہ گریڈ کے سرکاری ملازمین کی گاڑیاں واپس لے لی جائیں گی کیونکہ وہ پہلے ہی مونیٹائیزیشن الائونس لے رہے ہیں۔ تمام بھرتیوں پر پابندی ہوگی جبکہ گزشتہ تین سال سے خالی عہدوں کو ختم کر دیا جائے گا۔
کوئی نیا سرکاری ادارہ قائم نہیں کیا جائے گا جبکہ کابینہ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن موجودہ سیکریٹریٹ کے حجم پر نظر ثانی کرکے وزارتوں اور ڈویژنوں کی تعداد کو کم کریں گی۔ ایسے ادارے جہاں ملازمین کو مفت بجلی کی سہولت حاصل ہے ان میں نیا اصول لایا جائے گا۔ گریڈ 17؍ یا اس سے زیادہ گریڈ کے ملازمین کو مفت بجلی نہیں ملے گی جبکہ گریڈ ایک تا 16؍ کے ملازمین کو مونیٹائیز کیا جائے گا۔
آئی بی اور آئی ایس آئی کے صوابدیدی گرانٹس، خفیہ فنڈز کو محدود کر دیا جائے گا، کاغذ کے بغیر کام کرنے کا رجحان لایا جائے گا، الیکٹرانک پروکیورمنٹ متعارف کرائی جائے گی جبکہ ڈیجیٹل سسٹم، ٹیلی کانفرنس کو فروغ دے کر سفری اور قیام کے اخراجات کو کنٹرول کیا جائے گا۔ پنشن اصلاحات لانے کا عمل تیز کیا جائے گا ۔
سبسڈیوں اور گرانٹس کے حوالے سے کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز کے مطابق سرکاری کمپنیوں اور ترقیاتی بجٹ کو اگلے بجٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ تجاویز پر عملدرآمد کیلئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، لیکن بعد میں وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ وہ خود ہی اس کمیٹی کی قیادت کریں گے تاکہ ان تجاویز پر عملدرآمد کے معاملے میں کوئی حلقہ ہچکچاہٹ سے کام نہ لے۔