اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور آج کے وزیر اعظم شہباز شریف اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید تھے۔ جیل میں ان سے ملاقات کرنا بہت مشکل تھا، صرف خاندان کے لوگ ہی ملاقات کر سکتے تھے۔ ان کے ایک کزن شاہد شفیع
کی مجھ سے کافی مشابہت تھی لہٰذا میں ایک دن شاہد شفیع بن کر شہباز شریف سے ملاقات کے لئے اڈیالہ جیل پہنچ گیا۔ملاقات کے دوران شہباز شریف نے ایک چھوٹے سے ریڈیو پر فرمائشی فلمی نغموں کا پروگرام لگا دیا۔ وہ بار بار مجھے ’’میر صاحب اوہ سوری شاہد صاحب‘‘ کہتے اور پھر فرماتے کہ میں نے آپ کو لتا منگیشکر کے گانے سنانے کی زحمت اس لئے دی ہے تاکہ کوئی دوسرا ہماری گفتگو ریکارڈ نہ کرسکے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا گانا لگا دینے سے ریکارڈنگ رک جاتی ہے؟ شہباز شریف صاحب نے ایک ماہر جاسوس کے انداز میں بتایا کہ اگر میوزک لگا کر آپس میں گفتگو کی جائے تو ٹیپنگ میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ان کی ضرورت سے زیادہ احتیاط پسندی میرے مزاج کے خلاف تھی لہٰذا میں نے بڑی لاپرواہی سے کہا کہ ہم نے ملک کے خلاف تو کوئی سازش نہیں کرنی پھر اتنی احتیاط کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سن کر شہباز شریف صاحب نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی کو زور زور سے ہلا کر کہا کہ یہ احتیاط صرف آپ کے لئے ہے،
’’ میر صاحب اوہ سوری شاہد صاحب‘‘میں نہیں چاہتا کہ آپ کا وائس ڈیٹا کہیں محفوظ ہو جائے۔ ملاقات ختم ہوئی تو ایک سنتری نے کان میں کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب بڑے احترام سے ملے اور سرگوشی کے انداز میں کہا کہ پتہ نہیں آپ میر صاحب ہیں یا شاہد صاحب لیکن آئندہ تشریف لائیں تو خیال کریں کہ یہاں صرف آوازیں نہیں شکلیں بھی ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔
یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور میں ایک پابند سلاسل سیاستدان کی احتیاط پسندی کا جنازہ لے کر جیل سے واپس آگیا۔اگلے ہی روز صدر فاروق لغاری کا بلاوا آگیا۔ میرا خیال تھا کہ وہاں اور لوگ بھی ہوں گے لیکن اس دن صرف میں ہی تھا۔ صدر صاحب نے پہلا سوال یہ پوچھا کہ ’’شہباز سے ملاقات کیسی رہی؟‘‘ اس سوال نے مجھے ایک چھوٹا سا جھٹکا دیا۔
لیکن میں نے خود کو سنبھال کر کہا کہ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے نواز شریف کے ساتھ تعلقات بالکل ٹھیک ہیں اور وہ اپنے بھائی کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہ سن کر جناب صدر نے کہا ،وہ بالکل ٹھیک کہتا ہے، یہ عورت جھوٹ بولتی ہے کہ شہباز اور نواز کے تعلقات خراب ہیں۔ میں نے صدر سے پوچھا، کون عورت؟ صدر نے بڑے زہریلے انداز میں کہا۔
’’پنکی پرائم منسٹر‘‘۔صدر فاروق لغاری اپنی نشست سے اٹھے اور انہوں نے ٹیلی ویژن کی آواز اونچی کر دی۔ میرے پوچھے بغیر ہی کہنے لگے کہ آج کل انٹیلی جنس بیورو میرے فون ٹیپ کر تی ہے اس لئے ٹیلی ویژن کی آواز اونچی کردی۔ یہ ملاقات دوپہر کو ہوئی تھی۔ شام کو وزیر اعظم صاحبہ نے بلا لیا۔ بہت میٹھے لہجے میں کہا کہ شہباز شریف سے ملاقات کا نہیں پوچھوں گی یہ تو آپ کا کوئی سیکرٹ ہوگا لیکن میرے بھائی فاروق لغاری سے ملاقات کیسی رہی؟
میں نے بھی آؤدیکھا نہ تاؤ اور سوال داغتے ہوئے کہا، وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آپ ان کے فون ٹیپ کراتی ہیں، کیا یہ درست ہے؟ جواب ملا۔’’جو لوگ میرے فون ٹیپ کراتے ہیں ان کا پتہ لگانے کے لئے کچھ فون ٹیپ کئے جا سکتے ہیں‘‘۔ یہ پرانی کہانی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان میں فون ٹیپ ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
1996 میں صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ ججوں اور جرنیلوں کے فون ٹیپ کراتی تھیں۔ شہباز شریف کی تمام تر احتیاط پسندی اس وقت بھی ناکام ہوگئی جب ان کی اور جسٹس ملک قیوم کی گفتگو کی ٹیپ سامنے آئی جس میں وہ جج صاحب کو بے نظیر بھٹو کے خلاف جلدی سزا سنانے کی درخواست کر رہے تھے۔ یہ ٹیپ سامنے آئی تو جسٹس ملک قیوم نے کوئی بہانے بازی نہیں کی اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔