اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اورکالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں چار شاہراہیں تحریک پاکستان کے چار اہم کرداروں کی یاد دلاتی ہیں۔ ان چاروں میں سے تین کرداروں کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے جو آج بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے دارالحکومت میں داخل ہوں تو کشمیر روڈ کے بعد خیابان سہروردی آتی ہے۔
اتاترک روڈ اس شاہراہ کو اے کے فضل الحق روڈ سے ملاتی ہے ۔اس سے آگے جناح ایونیو ہے جس کے بعد ناظم الدین روڈ آتی ہے جو پرانے اور نئے اسلام آباد کو آپس میں ملاتی ہے۔ہماری نئی نسل قائد اعظم ؒمحمد علی جناح سے تو واقف ہے لیکن حسین شہید سہروردی، اے کے فضل الحق اور خواجہ ناظم الدین کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ ان تینوں رہنمائوں کی ایک مشترکہ یادگار بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے علاقے شاہ باغ میں بھی موجود ہے۔ شاہ باغ میں خواجہ سلیم اللہ کی رہائش گاہ احسن منزل پر 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی تھی۔ خواجہ ناظم الدین کا تعلق خواجہ سلیم اللہ کے خاندان سے تھا، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی اور اے کےفضل الحق قیام پاکستان سے قبل متحدہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔
اے کے فضل الحق کو آج بھی بنگلہ دیش میں شیر بنگال کہا جاتا ہے، ان کے نام پر بنگلہ دیش کے شہر میر پور میں شیر بنگلہ کرکٹ اسٹیڈیم ہے، یہی وہ شیر بنگلہ تھا جس نے 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلا س میں قرارداد لاہور پیش کی تھی جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔1954ء میں وہ مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ تھے لیکن انہیں غدار قرار دی کر حکومت سے نکال دیا گیا۔ اگلے ہی سال اس غدار کو پاکستان کا وفاقی وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔
حسین شہید سہروردی کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا سلوک کیا گیا۔ 1936ء میں وہ آل یونائیٹڈ بنگال مسلم پارٹی کے صدر تھے۔ قائد اعظم ؒنے خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں ایک وفد ان کے پاس بھیجا اور انہیں مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی۔ سہروردی نے یہ دعوت قبول کی اور اپنی پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کر دیا۔ 1946ء میں انہوں نے مسلم لیگ کو متحدہ بنگال میں کامیابی دلائی اور پھر بنگال کے وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے مسلم لیگ کے دہلی میں منعقدہ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
جب پاکستان بن گیا تو سہروردی کے شہر کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر فسادات روکنے کی کوشش کی جس کا ذکر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالمجید ملک کی کتاب ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘ میں ملتا ہے جو برطانوی فوج میں کپتان تھے اور مہاتما گاندھی کی حفاظت پر مامور تھے۔ سہروردی کو ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے ہجرت کرنے میں تاخیر ہو گئی۔ قائد اعظم علیل تھے لہٰذا سہروردی کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں ان کی نشست سے محروم کرنے کی سازش شروع ہو گئی۔ اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی کہ جو پاکستان بننے کے چھ ماہ کے اندر پاکستان نہیں آئے گا اس کی نشست منسوخ ہو جائے گی۔
سہروردی بھاگے بھاگے ڈھاکہ پہنچے تو تحریک پاکستان کے اس محترم رہنما کو پاکستان سے نکالنے کا منصوبہ تیار تھا۔ شائستہ سہروردی اکرام اللہ نے اپنی کتاب ’’حسین شہید سہروردی، اے بائیوگرافی‘‘ میں لکھا ہے کہ جس دن سہروردی صاحب پاکستان پہنچے اسی دن مشرقی پاکستان کے آئی جی پولیس ذاکر حسین نے ایک تحریری حکم نامے کے تحت انہیں پاکستان سے نکل جانے کیلئے کہا، بنگالیوں کے سب سے پاپولر لیڈر کو پاکستان سے اس لئے نکالا گیا تاکہ وہ یہ نہ کہے کہ پاکستان میں بنگالیوں کی اکثریت ہے اور اقتدار میں انہیں مناسب حصہ دیا جائے۔
قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد انہیں اسمبلی سے فارغ کر دیا گیا ادھر کلکتہ میں بھارتی حکومت انہیں انکم ٹیکس کے نوٹس دے رہی تھی جبکہ ان کے پاس ڈھاکہ میں رہنے کو مکان تک نہیں تھا آخر کار وہ لاہور میں نواب افتخار ممدوٹ کے پاس آ گئے تاکہ وکالت شروع کر سکیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ کراچی اور لاہور کی عدالتوں سے کہا گیا کہ انہیں بطور وکیل رجسٹر نہ کیا جائے۔ ساہیوال میں انہیں رجسٹر کیا گیا تو ان کی وکالت شروع ہوئی۔1949ءمیں سہروردی نے ڈھاکہ میں عوامی لیگ بنائی، شیخ مجیب الرحمان اس نئی جماعت کے جوائنٹ سیکرٹری تھے ۔ یہ جماعت چند سال کے اندر اندر مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی طاقت بن گئی اور 1956ء میں سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔
سہروردی مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتےتھے لیکن آرمی چیف جنرل ایوب خان سیاست میں مداخلت کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ پاکستانی فوج کے پہلے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل شیر علی خان پٹوڈی نے انہیں سیاست میں مداخلت سے بہت روکا۔ وہ اپنی کتاب ’’دی اسٹوری آف سولجرنگ اینڈ پالیٹکس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک دن جنرل ایوب خان نے مجھے کہا کہ میں سیاست سنبھالوں گا تم فوج کو سنبھالو۔‘‘ ایوب خان سیاست دانوں کو ’’بلڈی سویلینز‘‘ کہتے تھے۔
پٹوڈی نے بنگالیوں کی فوج میں بھرتی آسان بنانے کی تجویز دی تو ایوب خان نے مسترد کر دی ۔اس نے اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر پہلے سہروردی کو وزارت عظمیٰ سے الگ کیا پھر فیروز خان نون کو ہٹایا، سہروردی سے اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم ایک بریگیڈیئر یحییٰ خان کو گیارہ سینئر افسروں پر ترجیح دے کر میجر جنرل بنانے پر سوال اٹھایا تھا۔ آرمی چیف کو یہ سوال اتنا برا لگا کہ وزیر اعظم کی ہی چھٹی کرا دی۔ یہی یحییٰ بعد میں کمانڈر ان چیف بنے۔
اکتوبر 1958میں جنرل ایوب خان نے مار شل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا، جس نے 1956ء کے متفقہ دستور کی بحالی کا مطالبہ کیا وہ غدار قرار پایا۔ مارشل لا کی زیادہ مخالفت مشرقی پاکستان میں تھی۔ 1962ء میں ایوب خان نے پاکستان پر ایک صدارتی نظام مسلط کرنے کا فیصلہ کیا ان کے بنگالی وزیر قانون جسٹس (ر) محمد ابراہیم نے صدارتی نظام کی مخالفت کی۔ ’’ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم‘‘ میں ان کے اور جنرل ایوب خان کے درمیان ہونے والی سرکاری خط و کتابت موجود ہے جس میں جسٹس ابراہیم نے واضح طور پر لکھا کہ صدارتی نظام پاکستان توڑ دے گا اس لئے میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔
ایوب خان بنگالیوں سے اتنے تنگ آ گئے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس ابراہیم کے بعد انہوں نے سابق چیف جسٹس محمد منیر کو وزیر قانون بنالیا۔ جسٹس منیر سے صدر پاکستان نے کہا کہ کسی طرح بنگالیوں سے جان چھڑائو۔ سہروردی پر غداری کا مقدمہ بنا کر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل سے انہوں نے ایوب خان کو ایک خط لکھا اور پاکستان بچانے کی درخواست کی لیکن ایوب خان نے سہروردی کو جلاوطن کردیا اور وہ جلاوطنی میں ہی وفات پا گئے۔
شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں ڈٹ کر مادر ملت کا ساتھ دیا لیکن جنرل ایوب خان جیت گیا اور پاکستان ہار گیا، پھر اس جنرل ایوب خان کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سے نکالا اور 1970ءمیں انتخابات کرائے، ’’ایک آدمی، ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات میں عوامی لیگ کو اکثریت مل گئی۔ جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔
فوجی آپریشن سے ایک خانہ جنگی نے جنم لیا، بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور 16دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں جنرل امیر عبداللہ نیازی نے سرنڈر کر دیا، اس بحث کو چھوڑیں کہ یہ سیاسی شکست تھی یا فوجی شکست تھی ،اس حقیقت کو اب مان لیں کہ ایک ڈکٹیٹر نے نفرتوں کی فصل بوئی جو دوسرے ڈکٹیٹر کے اقتدار میں کاٹی گئی۔پاکستان کسی اور نے نہیں ہم سب نے مل کر توڑا، ہم تو خود بنگالیوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔
جو غلطیاں مشرقی پاکستان میں کی گئیں، انہیں آج بلوچستان میں دہرایا جا رہا ہے۔ خیابان سہروردی، فضل حق روڈ، جناح ایونیو اور ناظم الدین روڈ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر ختم ہوتی ہیں جہاں پارلیمنٹ کی عمارت ہے۔ ہم نے دستور کو بار بار پامال کرکے پاکستان توڑا، ہم آج بھی دستور اور پارلیمنٹ کو بے توقیر کر رہے ہیں، ہم کب سبق سیکھیں گے؟