کراچی (آن لائن)جرمنی کے سفیر الفریڈ گراناس نے پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تیل کے حوالے سے نہیں بلکہ گرین انرجی کے حوالے سے اگلا سعودی عرب بن سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں گرین ہائیڈروجن کافی مقدار پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت ہے
جسے جرمنی کو بھی برآمد کیا جا سکتا ہے۔ جرمنی گرین ہائیڈروجن کی کچھ پیداوار کررہا ہے تاہم یہ ناکافی ہے لہٰذا گرین انرجی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں جرمنی کو برآمدات کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔جرمن کمپنیاں گرین ہائیڈروجن کی پیداوار کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ شمسی، ہائیڈرو، ونڈ اور روایتی توانائی کے کچھ حصوں کو یکجا کرنے کے لیے ضروری ٹیکنالوجی لا سکتے ہیں تاکہ مستحکم توانائی کی پیداوار اور فراہمی ہوسکے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی)کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میںکراچی میں تعینات جرمن قونصل جنرل ڈاکٹر روڈیگر لوٹز، جرمن سفارتخانے کے فرسٹ سیکریٹری کرسچن بوٹچر، چیئرمین بزنس مین گروپ( بی ایم جی) زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی انجم نثار، سینئر نائب صدر کے سی سی آئی توصیف احمد، نائب صدر محمد حارث اگر، ڈپلومیٹک مشنز و امبیسیز لائژن سب کمیٹی کے چیئرمین ضیاء العارفین، سابق صدور مجید عزیز اور محمد ادریس کے علاوہ کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی شریک تھے۔جرمن سفیر کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کے حالات اُتار چڑھائو جاری ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے حالانکہ جرمن سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ صرف اُسی صورت میں سرمایہ کاری کریں گے جب وہ سرمایہ کاری کے مستحکم حالات اور سرمایہ کاری پر اچھا منافع دیکھیں گے۔یقیناً جرمن کمپنیاں اچھی ٹیکنالوجی اور خدمات فراہم کر سکتی ہیں لیکن وہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ جرمنی کو پاکستان کی برآمدات بہتر کرنے کا ایک اور شعبہ زرعی شعبہ ہے کیونکہ پاکستان اچھے معیار اور لذیذ زرعی مصنوعات تیار کرتا ہے۔گرین ہائیڈروجن کے علاوہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں مزید بہت کچھ کیا جا سکتا ہے لیکن زرعی مصنوعات کے پاکستانی برآمد کنندگان کو یورپی یونین کے قوانین پر عمل کرنا ہو گا اور ایک مشکل عمل سے گزرنا ہو گا جو اتنا آسان نہیں ہے
تاہم ایک بار اس کی تکمیل سے یورپی یونین سمیت جرمنی زرعی اور غذائی مصنوعات کی برآمدات کے حوالے سے بہت مستحکم مارکیٹ ثابت ہو سکتی ہے۔انہوں نے جی ایس پی پلس اسکیم کے بارے میں کہا کہ اگرچہ جی ایس پی پلس پاکستان اور جرمنی کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہوا ہے
لیکن اس کے جاری رہنے کے بارے میں فیصلہ یورپی پارلیمنٹ کرے گی اور اگر وہ نہ کر دیتی ہے تو پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس نہیںہوگا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںکہ یورپی پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کے شعبوں میں حاصل ہونے والی تمام کامیابیوں اور پاکستان کے جی ایس پی پلس سے متعلق وعدوں کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات ہیں۔چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ
پاکستان شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ضروری خام مال کی درآمد کے لیے ایل سی بھی نہیں کھولی جا رہی جبکہ توانائی کا جاری شدید بحران بھی صنعتوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔مزید برآں پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 30 ارب ڈالر تک کا بھاری نقصان ہوا اور اس وقت سیلاب زدہ علاقوں میں غریب عوام کی بحالی کا عمل جاری ہے۔
اس منظر نامے میں یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کی شکل میں حمایت حاصل ہوتی رہے جس نے پاکستان کی برآمدات کو 30 ارب ڈالر تک لے جانے میں مدد کی۔انہوں نے جرمن سفیر سے درخواست کی کہ وہ اپنے عہدے کو پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس جاری رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لائیں۔چیئرمین بی ایم جی نے جرمنی کی گرین انرجی پیدا کرنے کی مہارت
اور صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں سولر، ونڈ اور ہائیڈل پاور پلانٹس لگانے میں جرمنی سے تعاون طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سالوں میں جرمنی نے ایک اسکیم متعارف کرائی جس کے تحت پاکستانی صنعتوں کو جنریٹرز کی خریداری میں مدد فراہم کی گئی تھی جو کہ ایک بہترین اسکیم تھی۔صنعتوں میں شمسی توانائی کے پلانٹس کی تنصیب کے لیے جرمنی سے ایک بار پھر اسی طرح کے تعاون کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں ہمیں کوئی امداد نہیں چاہیے مگر 30 سال کی پے بیک مدت کے ساتھ سولر پاور پلانٹس لگانے کے لیے آسان شرائط پر قرضے صنعتوں کو درپیش توانائی کے بحران سے مستقل طور پر نمٹنے میں بہت مددگار ثابت ہوں گے۔انہوں نے مزیدکہا کہ جرمن کمپنیاں کراچی میں ڈی سیلینیشن پلانٹس لگانے میں بھی سرمایہ کاری کر سکتی ہیں اور صاف پانی کراچی کے
واٹر سپلائی کرنے والوں کو یا جرمن کمپنیاں براہ راست انفرادی طور پر صنعتوں کو فروخت کر سکتی ہیں۔زبیر موتی والا نے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارتی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ جرمنی پاکستانی اشیاء کا سب سے بڑا خریدار ہے لیکن ٹیکسٹائل، فیبرکس، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے جرمنی کے لیے پاکستان سے برآمدات کو بہتر بنانے کی
وسیع گنجائش موجود ہے۔ہم دونوں ممالک میں منعقد ہونے والے تجارتی میلوں اور نمائشوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے کے علاوہ حکومت سے حکومت اور کاروبار سے کاروباری وفود کے تبادلے کے ذریعے جرمنی کو ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کم از کم تین گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے جرمن کمپنیوں کو مئی 2023 میں منعقد ہونے والی ٹڈیپ کی ٹیکسپو نمائش میں شرکت کی دعوت دی۔کے سی سی آئی کے سینئر نائب صدر توصیف احمد نے جرمن سفیر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جرمنی کو برآمدات مالی سال 2022 میں 1.74 ارب ڈالر رہی جو کہ مالی سال 2021 میں 1.51 ارب ڈالر تھی جو کہ سال بہ سال کی بنیاد پر 15.67 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
اسی طرح جرمنی سے پاکستان کی درآمدات میں 8.88 فیصد اضافہ ہوا جو مالی سال 2021 میں 1.14 ارب ڈالر کے مقابلے مالی سال 2022 میں 1.25 ارب ڈالر رہا۔یورپی یونین پاکستان کے لیے سب سے بڑا برآمدی مقام رہا ہے جہاں مالی سال 2022 میں 8.3 ارب ڈالر کی برآمدات کی گئیں
اس کے بعد امریکا کو 6.8 ارب ڈالر اور چین 2.8 ارب ڈالر کی برآمدات کی گئیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی کے لیے ڈیری پروڈکشن، الیکٹریکل، مشینری، پلاسٹک، معدنی ایندھن اور فارماسیوٹیکل سیکٹر جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
پاکستان جرمن، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں، تیل اور گیس کے شعبے کے انفرااسٹرکچر منصوبوں، زرعی شعبے، ٹیکسٹائل، معدنیات اور ادویات سازی وغیرہ میں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع فراہم کرتا ہے۔پاکستان کے پاس سستے
لیبر اخراجات کے ساتھ وافر انسانی وسائل ہیں جو کہ جرمن سرمایہ کاروں کے لیے اپنے نوجوانوں کے لیے تکنیکی اور مہارتوں کی ترقی کے شعبے میں مشترکہ منصوبے تلاش کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے تاکہ پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔