اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ آج کل کچھ سیاستدانوں کے بیانات ہمیں بار بار میر تقی میر کی یاد دلاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما جناب فواد چودھری نے فرمایا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو مارشل لاءسے بچا لیا۔ دلیل یہ دی کہ اگر عمران خان صدر عارف علوی کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے نوٹیفیکیشن پر
دستخط سے روک دیتے تو ملک میں مارشل لاءلگ جاتا ۔فواد چودھری نے جو بھی کہا وہ انتہائی قابل غور ہے کیونکہ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک طرف جنرل قمر جاوید باجوہ دوسری مرتبہ ایکسٹینشن کیلئے سرگرم تھے ، دوسری طرف ایک صاحب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ اگر انہیں آرمی چیف بنا دیا گیا تو وہ عمران خان کو نیست ونابود کر دیں گےاور ان کا ’’فیض‘‘ غیر مشروط ہوگا۔نجانے باجوہ اور فیض مل کر کھیل رہے تھے یا ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے لیکن یہ طے ہے کہ جی ایچ کیو سے وزارت دفاع کو آرمی چیف کیلئے نام بھجوانے کی سمری میں تاخیر بہت سوچ سمجھ کر کی گئی۔آخر میں جب سمری بھیج دی گئی تو خیال تھا کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو عمران خان صدر عارف علوی کو اس فیصلے کی تصدیق سے روک دیں گے ۔ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور مار شل لاء کے حالات پیدا ہو جائیں گے ۔
فواد چودھری برا نہ منائیں تو عرض ہے کہ جب وزیر اعظم آفس نے سمری صدر عارف علوی کو بھجوائی تو ہماری اطلاع کے مطابق انہوں نے اس پر دستخط کر دیئے ۔دستخط کرنے کے بعد وہ وزیر اعظم کے ہوائی جہاز پر لاہور گئے اور عمران خان سے ملاقات کی ۔خان صاحب سمری پر دستخط سے روکتے بھی تو کوئی فائدہ نہ ہوتا لیکن خان صاحب کو بھی مارشل لاء کے خطرے کا احساس تھا۔
انہوں نے صدر کو دستخط سے نہیں روکا اور یوں مار شل لاء کا خطرہ ٹل گیا۔مارشل لاء کس نے لگانا تھا؟ ظاہر ہے جنرل باجوہ نے لگانا تھا جن کی زبان سے میں نے مارشل لاء کی بات ایک د فعہ نہیں بار بار سنی۔ان کے دل کے کسی گوشے میں پانچ ہزار افراد کو لٹکانے کی ایک خواہش اکثر انگڑائیاں لیتی تھی۔یہ خواہش ان کی زبان پر تڑپتی لیکن پھر واپس دل میں جا کر سوجاتی۔