ہفتہ‬‮ ، 26 جولائی‬‮ 2025 

ارشد شریف اور خرم احمد بزنس پارٹنر بھی تھے ، دونوں نے مل کر پراپرٹی میں سرمایہ کاری کررکھی تھی ، بی بی سی کا دعویٰ

datetime 28  اکتوبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کا معمہ بظاہر ہر گزرتے دن کے ساتھ الجھتا نظر آ رہا ہے۔ نہ صرف پاکستان میں حکمراں جماعت اور فوج اس حوالے سے کئی سوالوں کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے وہیں کینیا میں اس واقعے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا بھی دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے ’پورا سچ ابھی سامنے نہیں آیا۔‘

بی بی سی اردو کی خصوصی رپورٹ کے مطابق سائرس اومباتی کینیا کے ایک بڑے نیوز گروپ کے چیف کرائم رپورٹر ہیں۔ اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے تحویل میں لیے گئے افراد نے پولیس کے ساتھ ابتدائی تفتیش میں کچھ معلومات فراہم کی ہیں مگر ’جس طرح ارشد شریف قتل ہوئے، اس حوالے سے ابھی بھی پورا سچ سامنے نہیں آیا ہے۔‘سائرس اومباتی کے مطابق سکیورٹی اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی اطلاعات کے مطابق واقعے سے ایک دن قبل ارشد شریف نے اپنے ساتھی خرم احمد کے ساتھ شام اموڈمت نامی علاقے کے ایک تفریح کمپلکیس میں گزاری تھی، جہاں انھوں نے اپنا زیادہ وقت شوٹنگ رینج میں گزارا تھا۔مذکورہ علاقہ کینیا میں رہنے والے پاکستانی نژاد شہریوں کی پسندیدہ جگہ ہے اور اس علاقے میں واقع بیشتر فارم ہاؤسز اور گھر پاکستانیوں کی ملکیت ہیں۔سائرس اومباتی کے مطابق انھیں حکام نے تصدیق کی ہے کہ سفید رنگ کی وہ ٹویوٹا کرولا گاڑی جس پر فائرنگ ہوئی تھی وہ بھی خرم احمد کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ خرم احمد کے حوالے سے جو ابتدائی معلومات سامنے آ رہی ہیں اُن کے مطابق خرم احمد پاکستانی نژاد کینڈین شہری ہیں، جو کینیا میں فارمنگ، پراپرٹی اور تعمیرات کے کاروبار سے منسلک ہیں۔سائرس اومباتی کے مطابق حکام نے بھی بتایا ہے کہ ارشد شریف لگ بھگ گذشتہ دو ماہ سے کینیا کے علاقے ویسٹ لینڈ میں رہائش پذیر تھے، جہاں پر اُن کی میزبانی خرم احمد کا خاندان کر رہا تھا۔

سائرس اومباتی کے مطابق پولیس کی تفتیش میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ واقعے والے دن دونوں نے شام آٹھ بجے کوینیا کے علاقے سے نیروبی جانے والے راستے پر سفر کا آغاز کیا تھا۔ان کے مطابق ’یہ بھی پتا چلا ہے کہ جب فائرنگ کا واقعہ پیش آ رہا تھا عین اُس وقت خرم احمد نے ٹنگا کے علاقے میں رہائش پذیر ایک پاکستانی شہری کو فون کال کی تھی۔‘کینیا میں حکام کا کہنا ہے کہ

تفتیشی حکام نے اُس پاکستانی شہری سے بھی پوچھ گچھ کی ہے جنھیں خرم احمد نے کال کی تھی۔سائرس اومباتی کا کہنا ہے کہ ’وہ پاکستانی شہری کون ہیں اس بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ پولیس بھی یہ نہیں بتا رہی ہے کہ خرم احمد کی اس شہری سے کیا بات ہوئی تھی؟‘سائرس اومباتی اور کینیا کے ذرائع ابلاغ کے مطابق اپنے ابتدائی بیان میں خرم احمد نے پولیس کو بتایا ہے کہ

ارشد شریف اُن کے پاس گذشتہ دو ماہ سے سیاحتی ویزے پر مقیم تھے۔ انھوں نے ابتدائی بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ارشد شریف اور اُن کے درمیان کچھ کاروباری تعلقات بھی تھے۔یاد رہے کہ خرم احمد کو کینیا میں ایک بااثر سرمایہ کار سمجھا جاتا ہے۔ارشد شریف کی سٹوری کور کرنے والی ایک اور صحافی والیایلیودکیبی کے مطابق خرم احمد نے پولیس کو بتایا ہے کہ

ارشد کینیا میں رُک کر متحدہ عرب امارات کا ویزا دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس کے لیے انھوں نے پراسس بھی شروع کر رکھا تھا۔ایلیود کیبی کے مطابق پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد یہ دعویٰ بھی کیا کہ ارشد شریف کا خرم احمد کے ساتھ تعلق صرف دوستانہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ کاروباری تعلق بھی تھا اور ارشد شریف نے خرم احمد کے ساتھ مل کر پراپرٹی میں سرمایہ کاری بھی کر رکھی تھی۔

ایلیود کیبی کے مطابق پولیس نے ارشد شریف کی سرمایہ کاری کے حوالے سے خرم احمد سے دستاویزات بھی طلب کی ہیں۔ایلود کیبی کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کو کندھے اورسر کے درمیاں گولی لگی ہے۔

صحافی سائرس اومباتی کے مطابق پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد صحافتی حلقوں میں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ پولیس کا مبینہ طور پر گاڑی روکنا مقصد ہی نہیں تھا کیونکہ اگر گاڑی روکنا مقصد ہوتا تو ڈرائیور کی طرف نشانہ لیا جاتا۔انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو لے کر کینیا کی پولیس اور حکومت دونوں اس وقت دباؤ کی شکار ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرایہ


میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…