اسلام ابٓاد (این این آئی) اسلام آباد پولیس نے عمران خان کا بیان ریکارڈ کرکے تفتیش کا حصہ بنا دیا۔ بدھ کو خاتون جج اور آئی جی ڈی آئی جی کو دھمکیوں پر عمران خان کیخلاف دہشتگردی کے مقدمہ میں چیئرمین تحریک عمران خان شامل تفتیش ہوئے۔پولیس جے آئی ٹی سامنے کے عمران خان سوال کیاگیاکہ کیا یہ درست ہے کے آپ نے تقریر میں کہا
آئی جی ڈی آئی جی شرم کرو،زیبا چوہدری آپ پر ہم ایکشن لیں گے؟جس پر عمران خان نے جواب دیاکہ ہاں میں نے بولا ہے ایسا،سوال کیاگیاکہ کیا آ پ کو علم کے آپ کی اس تقریر کے بعد افسران کے ماتحت فورس میں خوف پیدا ہوا؟۔ عمران خان ن جواب دیاکہ نہیں میرا مطلب ڈرانا خوف پھیلانا نہیں تھا۔ سوال کیاگیاکہ آپ کی تقریر اور مقدمے کے بعد کیس کے تفتیشی افسر کو ڈرایا جا رہا ہے۔ عمران خان نے جواب دیاکہ نہیں یہ بات میرے علم میں نہیں ہے۔ سوال کیاگیاکہ شہباز گل کیس زیر سماعت ہے اسکا فیصلہ آنا باقی ہے عمران خا ن نے جواب دیاکہ جی میرے علم میں۔ ذرائع کے مطابق پولیس حکام نے بتایاکہ آپکے یہ بیانات دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں عمران خان نے جواب دیاکہ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان سے تفتیش ایس ایس انویسٹیگیشن ایس پی سی آئی اے کیس کے تفتیشی متعلقہ ایس ایچ او موجود تھے، پولیس نے عمران خان کا بیان ریکارڈ کرکے تفتیش کا حصہ بنا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین، سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنے خلاف دہشت گردی کے مقدمے میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو ئے جن سے بیس منٹ تک تفتیش کی گئی۔ذرائع کے مطابق پولیس ٹیم کی جانب سے سابق وزیراعظم کو تحریری طور پر 21 سوالات پر مشتمل سوالنامہ دیا گیا،پولیس کی جانب سے کچھ سوالات زبانی بھی کیے گئے۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان سے تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں تقریبا 20 منٹ تک تفتیش کی۔ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نے اپنے وکیل کے ذریعے پہلے ہی سے جمع بیان دوبارہ دیدیا۔ عمران خان نے بیان میں کہا کہ شہباز گل پر تشدد کے حوالے سے اپنی تقریر میں کوئی دہشت گردی نہیں کی،ایف نائن پارک میں جو تقریر کی، وہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتی،
اپنی تقریر میں قانونی ایکشن لینے کی بات کی، کوئی دھمکی نہیں دی۔عمران خان نے تحریری بیان جے آئی ٹی کے سربراہ ایس پی تفتیشی ونگ رخسار مہدی کے حوالے کیا۔ بیان میں عمران خان نے مقف اختیار کیا کہ میرے خلاف امپورٹڈ حکومت کے دبا پر پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا۔عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے تحکمانہ انداز میں پولیس افسران اور ماتحت عدلیہ کی جج صاحبہ کو دھمکا کر خوف و ہراس کی فضا پیدا کی؟،
جس پر سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں، میں اس پورے مقدمے کو انتقامی کارروائی اور جھوٹا سمجھتا ہوں۔بعد ازاں سوالوں کا جواب دینے کے بعد عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری جے آئی ٹی میں پہلی پیشی ہوئی۔ ساری دنیا کے سامنے مذاق ہے، میرے خلاف دہشت گردی دفعات لگائی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ شہباز گل کو اغوا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو پیغام ہے کہ جتنا تنگ کریں گے،
اتنی ہی تیاری کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ٹیلی تھون پر فنڈز جمع کرنے تھے، انہوں نے چینلز بند کردئیے، ان کی چوری کی وجہ سے ان کو پیسے نہیں ملتے۔صحافی نے سابق وزیراعظم سے سوال کیا کہ خان صاحب کال دینے میں اتنا وقت کیوں لگا رہے ہیں، معیشت اگر تباہ ہو رہی ہے تو کال دے دیں۔ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہونے والی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے ہر چیز آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کی،
میں اس لیے چپ بیٹھا رہا کیوں کہ معاشی حالات برے تھے، اب عوام کا سمندر نکلنے والا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت سیلاب پر سیاست کی جا رہی ہے، ہمیں کہہ رہے ہیں سیلاب ہے کہ سیاست نہ کرو اور دوسری طرف میری پارٹی کو کرش کرنے لگے ہیں، جو لوگ ہمیں سیاسی فنڈنگ کرتے تھے انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ معیشت سنبھل نہیں رہی، پاکستان سری لنکا کے نقش قدم پر جارہا ہے، جب میں کال دوں گا تو حکومت برداشت نہیں کر سکے گی۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہاکہ حکومت سے صرف صاف و شفاف الیکشن پر بات ہوسکتی ہے، معیشت کی بہتری کا حل صرف صاف شفاف انتخابات ہیں۔ قبل ازیں جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے موقع پر عمران خان کی گاڑی ڈی آئی جی آپریشن آفس کے اندر آ گئی تاہم باقی قافلے کو باہر ہی روک دیا گیا تھا۔عمران خان کے خلاف تھانہ مارگلہ میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو دہشت گردی کے مقدمے میں شاملِ تفتیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔