اسلام آباد (این این آئی)سفارتی اور آئی ایم ایف ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدہ طے پانے کے نزدیک پہنچ گیا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے تمام 24 ارکان کو اس معاہدے کی تکمیل کیلئے درکار اسٹاف رپورٹ کی کاپیاں موصول ہوگئی ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بورڈ کا اجلاس 29 اگست کو ہوگا جس میں 2019 میں کیے گئے 6 ارب
ڈالر کے قرض پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کی رپورٹ اور جون 2023 تک اس میں توسیع پر بھی غور کیا جائے گا۔بورڈ ارکان میں تقسیم کی گئی دستاویزات میں پاکستان کی جانب سے ایک لیٹر آف انٹینٹ بھی شامل ہے جس میں معیشت میں اصلاحات کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے۔پاکستان نے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں پر مفاہمت کی ایک یادداشت بھی پیش کی ہے، اس کے ساتھ آئی ایم ایف ٹیم کی جانب سے ایک تکنیکی میمورینڈم بھی پیش کیا گیا ہے۔آئی ایم ایف عملے کے میمورینڈم میں بورڈ کے لیے تیار کردہ مطالعات اور رپورٹس شامل ہیں جوکہ آرٹیکل 4 سے متعلق مشاورت، منتخب مسائل پر مقالے، شماریاتی ضمیمے اور پالیسی پیپرز پر مشتمل ہیں۔29 اگست کے اجلاس کے دوران پاکستان پیشگی اقدامات اور ترجیحات سے متعلق دستاویزات بھی پیش کرے گا جوکہ بعدازاں اجلاس کے ریکارڈ میں شامل کی جائیں گی۔
اجلاس سے قبل دستیاب ‘گرے ڈاکیومنٹس’ کہلائی جانے والی دستاویزات میں آئی ایم ایف بورڈ کو دیے جانے والے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے بیانات کا ابتدائی ورڑن شامل ہے، ایگزیکٹو بورڈ کو پریس ریلیز کے مسودے کا خاکہ بھی موصول ہوا ہے جو پاکستان کے لیے مجوزہ پیکج کی منظوری کی صورت میں جاری کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے معاہدے میں گورننس سے متعلق سخت شرائط شامل ہوسکتی ہیں جس کا مقصد مالی بدعنوانی کو روکنا ہے۔ذرائع نے بتایاکہ بین الاقوامی حلقوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے انسداد کرپشن کے اقدامات بہت سخت تھے اور اکثر حکام کو بڑے فیصلے لینے سے روکتے تھے تاہم موجودہ حکومت نے انسداد کرپشن کے اقدامات کا کمزور کردیا ہے جو کرپشن کے فروغ کا سبب بن سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف ایسے اقدام کرنے کو ترجیح دے گا جس سے بدعنوانی کو روکا جا سکے لیکن سخت پابندی نہ ہو۔بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ان تمام موجودہ قوانین پر نظرثانی کے لیے اینٹی کرپشن ٹاسک فورس قائم کرے جن کا مقصد سرکاری محکموں میں بدعنوانی کو روکنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق نئی شرائط کے تحت سیاستدانوں اور سرکاری افسران پر بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہو سکتا ہے۔ان میں سے کچھ اقدامات پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پہلے ہی ایک معاہدے طے پا چکا ہے۔آئی ایم ایف نے 13 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ ایک اسٹاف لیول معاہدہ کیا ہے تاکہ اس کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے جائزے کو آگے بڑھایا جا سکے جس کے نتیجے میں آئی ای ایف کی جانب سے مجموعی طور پر 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔
یہ معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری سے مشروط ہے، 29 اگست کے اجلاس کے بعد پاکستان کو فوری طور پر تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مل سکتے ہیں جس سے ملک کی کرنسی اور ذخائر پر دباؤ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، علاوہ ازیں آئی ایم ایف کا قرض دیگر دو طرفہ ذرائع اور قرض دہندگان سے مزید مالی اعانت کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔13
جولائی کے معاہدے میں نشاندہی کی گئی کہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے فوری ترجیح 2023 کے بجٹ کا مستقل نفاذ ہے۔اس معاہدے میں مارکیٹ سے طے شدہ شرح مبادلہ اور ایک فعال اور مو?ثر مالیاتی پالیسی کی مسلسل پابندی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔علاوہ ازیں اس میں ریاستی ملکیتی اداروں اور گورننس کو بہتر بنانے سمیت اصلاحات کے تحفظ اور اس میں تیزی لانے کے لیے سماجی تحفظ کو بڑھانے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔