اسلام آباد(این این آئی)75 سال قبل بھارت اور پاکستان کے قیام کے بعد کھیلوں میں بھی دونوں ممالک سب سے بڑے حریف ثابت ہوئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کوئی بھی کرکٹ میچ سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ایونٹس میں
سے ایک ہوتا ہے۔پاکستان کے فاسٹ باؤلنگ لیجنڈ اور کمنٹیٹر وسیم اکرم نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ میں کروڑوں لوگوں کے جذبات شامل ہوتے ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ جب آپ اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں تو ہیرو بن جاتے ہیں جبکہ آپ کو بطور ولن پیش کیا جاتا ہے اگر ٹیم میچ ہار جائے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچز میں زبردست جوش و خروش ہوتا ہے تاہم اس سے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تناؤ بھی کم ہوتا ہے۔1987 میں بھی دونوں ممالک کی فوجیں سرحد پر آمنے سامنے آ رہی تھیں، اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق غیر اعلانیہ طور پر نئی دہلی میں بظاہر دونوں کے درمیان ہونے والا میچ دیکھنے گئے،اس اقدام کے نتیجے میں سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے ان کی ملاقات ہوئی اور دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی واقع ہوئی۔پڑوسی ممالک کے درمیان 2007 کے بعد سے اب تک کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا گیا، یہ اپنے ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف میچ کھلینے کے بجائے صرف کھیل کے مختصر فارمیٹس کے ٹورنامنٹس میں دوسرے ممالک میں مدمقابل ہوتے ہیں۔جب یہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف کھیلتے ہیں، جیسا کہ یہ اس مہینے کے آخر میں ایشیا کپ میں متحدہ عرب امارات میں
ایک دوسرے سے ٹکرانے جارہے ہیں تو دنیا بھر میں کرکٹ کے شائقین اپنی ٹی وی اسکرین سے چپک کر بیٹھ جائیں گے جس کی وجہ سے براڈکاسٹرز کو خطیر آمدنی حاصل ہوتی ہے۔کرکٹ ورلڈ کپ 2019 میں پاکستان اور بھارت کا میچ 27 کروڑ 30 لاکھ لوگوں نے دیکھا تھا جبکہ گزشتہ برس ٹی20 ورلڈکپ میں 16 کروڑ 70 لاکھ لوگوں نے براہ راست میچ دیکھا۔پاکستان کی ورلڈکپ 1992 کی فاتح ٹیم کے کپتان
عمران خان نے اسکائی اسپورٹس ڈاکومینٹری میں بتایا کہ بھارت اور پاکستان کی دو طرفہ سیریز کا کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ یہ مختلف لیگ کے طور پر کھیلی جاتی ہے۔انہوںنے کہاکہ ماحول گرم، دباؤ اور لطف سے بھرپور ہوتا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو فیصل حسنین نے پاکستان اور بھارت کے میچ کو تمام کرکٹ میچوں کی ماں قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ شائقین چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک مستقل
بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف کھیلیں، میچز اسی وقت کھیلے جاسکتے ہیں جب ان ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی۔انہوںنے کہاکہ ہم صرف انتظار اور امید کر سکتے ہیں۔تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو 18ویں صدی میں برصغیر میں کرکٹ زیادہ تر اس وقت کے انگریز نوآبادیاتی حکمران کھیلتے تھے تاہم مقامی لوگوں کو کھیل میں نیٹ پریکٹس کے لیے استعمال کیا گیا جس کے بعد انہوں نے کرکٹ
کھیلنا سیکھی۔بھارت نے تقسیم سے قبل 1932 میں ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کیا تھا، پاکستان بننے کے بعد زیادہ تر مسلمان کھلاڑی بشمول 3 کھلاڑی جو قومی ٹیم کے لیے کھیل چکے تھے، وہ پاکستان آ گئے، جنہیں پاکستان میں کھیل کا ازسرنو آغاز کرنا پڑا۔پاکستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ 1952 میں بھارت کے خلاف کھیلا تھا، اس ٹیم کی قیادت عبدالحفیظ کاردار نے کی تھی۔پاکستان اور ھارت نے 59 ٹیسٹ میچوں میں
ایک دوسرے کا سامنا کیا، پاکستان نے 12 اور بھارت نے 9 میں کامیابی حاصل کی، باقی میچز ڈرا ہوئے۔ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں بھی پاکستان کا پلڑا بھاری رہا تاہم بھارت کھیلے جانے والے 9 ٹی 20 میں سے 7 جیتنے میں کامیاب رہا۔ویمن کرکٹ مقابلوں میں بھارت نے تمام 11 ون ڈے انٹرنیشنل جیتے اور 12 ٹی 20 میچوں میں سے 10 میں بھی بھارت کامیاب رہا۔کرکٹ میں ون ڈے انٹرنیشنل کی آمد نے مسابقت
میں اضافہ کردیا ہے، ایک تجزیہ کار نے ان میچوں کو فائرنگ کے بغیر جنگ قرار دیا۔1991 میں عاقب جاوید نے 7 وکٹیں حاصل کیں جس میں ایک ہیٹ ٹرک بھی شامل تھی، اس کی وجہ سے پاکستان نے شارجہ میں ویلز ٹرافی جیتی، یہ میچ تقریباً اندھیرے میں ختم ہوا تھا، جس کی وجہ سے ہارنے والی بھارتی کرکٹ ٹیم اور شائقین میں غم و غصہ بھی پیدا ہوا تھا۔عاقب جاوید نے سخت لہجے میں کہا کہ وہ مہینوں تک اس میچ کے بارے میں سوچتے رہے۔بھارت کے سابق بیٹسمین سنجے منجریکر نے کہا کہ وہ پاکستان کے خلاف باقاعدہ میچز کو مس کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میری پسندیدہ حریف ٹیم ہے، وہ فیلڈ میں بہت تفریح فراہم کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک بہت اچھی کرکٹ ٹیم ہے۔