جمعرات‬‮ ، 10 اکتوبر‬‮ 2024 

ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے وہ بھی ذمہ دار ہیں جو سازش روک سکتے تھے، عمران خان

datetime 1  اگست‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) سابق وزیراعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کی قیادت ان لوگوں کو کرنی چاہئے جن کا سب کچھ پاکستان میں ہو، حکومت کی ساکھ یہ ہے کہ آرمی چیف کو پیسوں کیلئے فون کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان سری لنکا کے بعد دیوالیہ ہونے

کے قریب چوتھا ملک ہے،ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار وہ بھی ہیں جو سازش روک سکتے تھے،پی پی اندرون سندھ اور (ن) لیگ سینٹرل پنجاب کی جماعت بن کر رہ گئی ہے،حکومت کی ساڑھے تین ماہ کی کارکردگی سامنے ہے،ان کو معیشت،مہنگائی سے کوئی دلچسپی نہیں، مقصد صرف این آر او لینا تھا،اگر ہماری حکومت گرانی ہی تھی تو کوئی منصوبہ بندی تو کرتے۔پارٹی کی نیشنل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جیسا ارتقاء پی ٹی ائی کا ہوا ہے کسی پارٹی کا نہیں ہوا، شروع میں پارٹی کے اجلاس میں تصویر بنانے کیلئے ملازموں کو بھی بٹھاتے تھے، ملازموں کو اس لئے بٹھاتے تھے تاکہ نمبر زیادہ لگے۔ انہوں نے کہا کہ میرا یہاں آنے کا مقصد ہے کہ اپنے آئین کو اپ ڈیٹ کریں، کسی بھی ادارے یا ملک کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر غلطیوں سے سیکھ کر تبدیلی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک پیپلز پارٹی واحد جماعت تھی جو چار سال میں اقتدار میں آ گئی لیکن وہ اس پراسیس سے نہیں گزری جس سے ہم گزرے ہیں، ملک میں دو پارٹیوں کا نظام تھا، ہمارے سامنے دونوں جماعتیں سکڑ گئیں، ایک جماعت صرف سینٹرل پنجاب جبکہ دوسری صرف اندورن سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت کبھی ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ ادارہ نہ بنے اور اس میں میرٹ نہ ہو، میرٹ اس وقت آتا ہے جب پارٹی میں انتخابات ہوتے ہیں، ہم نے اپنی جماعت میں 11 مہینے کا بہت بڑا الیکشن کروایا تھا،

کیونکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا رجحان نہیں ہے۔ انہوں ناے کہا کہ کرکٹ کی تاریخ میں نیوٹرلز امپائرز نہیں ہوتے تھے اس کی وجہ سے میدانوں میں جھگڑے ہوتے تھے کہ امپائرز کی وجہ سے میچ ہارے ہیں جبکہ نیوٹرلز امپائر آنے کے بعد صورتحال یکسر مختلف ہو گئی ہے اب ہارنے والا شکست کو تسلیم کرتا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بھی ماسوائے 1970ء کے انتخابات کے کوئی بھی شکست تسلیم نہیں

کرتا، اسی لئے ہم نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) لانے کا فیصلہ کیا تھا، موجودہ الیکشن کمشنر نے اس کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی، الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے کہ حکومت جو پروسس بناتی ہے اس پر علمدرآمد کرے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشنر نے بھرپور کوشش کی ای وی ایم کو نہ آنے دے، اسی طرح دونوں جماعتوں نے بھی الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی 20 نشستوں پر ہونے والے

ضمنی انتخابات سے قبل 2 ہفتے ہم صرف یہ کوشش کررہے تھے کہ دھاندلی کو کیسے روکیں، صاف اور شفاف انتخابات کے حوالے سے این جی او کی رپورٹ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے 163 طریقے ہیں، ایک بار ای وی ایم مشینیں آ جائیں تو اس سے دھاندلی کے 130 طریقے ختم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی ہم عام انتخابات سے فارغ ہوں گے تو فوری طور پر پارٹی کے اندر ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بڑے پیمانے پر انتخابات

کروائیں گے تاکہ جو لوگ نچلی سطح پر محنت کررہے ہیں وہ پارٹی میں اوپر آ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی جماعتوں کے ختم ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان جماعتوں میں کوئی میرٹ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کا نظریہ بہت اہمیت کا حامل ہے، ہمارے اپنی جماعت کے لوگ اور عہدیدار کو بھی نظریے کا صحیح طریقے سے نہیں پتہ، پاکستان کو جو مشکلات ہیں اس کی بڑی وجہ پاور کی سیاست ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے

کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 1988ء سے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، کرپشن کے مقدمات ان لوگوں نے ایک دوسرے کیخلاف بنائے، نواز شریف کے خلاف حدیبہ پیپر ملز میں منی لانڈرنگ کا کیس پیپلز پارٹی نے بنایا تھا، اسی طرح سرے محل اور آصف زرداری کے خلاف سوئس بینک میں 60 ملین ڈالر کا مقدمہ مسلم لیگ (ن) نے بنایا تھا، دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے تھے کہ انہوں

نے پاکستان کے عوام کا پیسہ چوری کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2008 میں میثاق جمہوریت کے نام پر دونوں جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ ہماری حکومتیں کرپشن کی وجہ سے ختم ہوئی ہیں، پھر انہوں نے 10 سال ملک کو لوٹا، ان کا کوئی نظریہ نہیں تھا، جو لوگ ایک دوسرے کے خلاف تھے وہ سب لوگ تحریک انصاف کے خلاف ہوگئے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ان لوگوں نے کہا کہ ہم مہنگائی کی وجہ سے حکومت گرانا چاہتے ہیں، اللہ نے ساری

قوم کے سامنے اس مفادات کی سیاست کو بے نقاب کر دیا، ان لوگوں نے ساڑھے تین مہینے میں جو کچھ کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ ان کو معیشت اور مہنگائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ این آر او لیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہماری حکومت گرانی ہی تھی تو کوئی منصوبہ بندی تو کرتے، مفتاح اسماعیل بیٹھ کر بتاتا کہ ہم یہ یہ اقدامات کریں گے تو ہماری معیشت ٹھیک ہو جائیگی، آپ غور کریں کہ مہنگائی عروج پر ہے، معیشت

تباہی کا شکار ہے، انہوں نے اسمبلی سے نیب قانون میں ترمیم کرکے 11 سو ارب روپے کی کرپشن معاف کروائی۔انہوں نے کہا کہ جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی اس وقت ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں 178 روپے تھی جبکہ آج اس کی قیمت 250 روپے پر پہنچ گئی ہے، اسی طرح شرح سود 11 فیصد تھی جبکہ آج شرح سود 15.5 فیصد ہے، مارچ میں ٹیکس کلیکشن کی شرح نمو 32 فیصد تھی، جولائی میں اس کی گروتھ 10 فیصد پر آ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں برآمدات اور ترسیلات زر میں ریکارڈ سطح پر اضافہ ہو رہا تھا جبکہ آج یہ دونوں چیزیں نیچے جا رہی ہیں، یہ سب سے خطرناک ہے کیونکہ یہ ہمیں ڈیفالٹ کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مارچ میں بیرونی خسارہ 50 کروڑ ڈالر تھا جبکہ آج بیرونی خسارہ 2.6 ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے، ہمارے دور میں ’ایس پی آئی ’کے حساب سے مہنگائی 17 فیصد تھی جبکہ آج مہنگائی کی شرح 38 فیصد ہے۔انہوں نے

کہا کہ کورونا کے باوجود سب سے زیادہ نوکریاں ہمارے دور میں دی گئیں، عالمی بینک نے رپورٹ میں کہا تھا کہ برصغیر میں سب سے کم بیروزگاری ہمارے دور میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمارے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو اس وقت ہمارے زرمبادلہ کے زخائر 16.4 ارب ڈالر کے تھے جب کہ آج زرمبادلہ کے ذخائر آدھے ہو گئے ہیں، اسی طرح بڑی صنعتوں کی شرح نمو 26 فیصد تھی جو کہ کم ہو کر 10 فیصد پر آ گئی ہے۔ انہوں نے

کہا کہ کیا ضرورت ہے ان لوگوں کو جو دیکھ رہے تھے کہ سازش ہو رہی ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ نہیں کریں گے، جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے آج وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں، پاکستان ان ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جو سری لنکا کے بعد ڈیفالٹ کرنے جا رہا ہے۔انہوں نے کہا آج آرمی چیف امریکی نائب وزیر خارجہ کو فون کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے سفارش کرکے پیسے دلوا دیں تو آپ سوچیں کہ ملک کے کیا حالات

ہیں، اس حکومت کی ساکھ اتنی خراب ہے کہ انہیں آرمی چیف کو کہنا پڑ رہا ہے کہ فون کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے ملک کے مستقبل کا بھی نہیں سوچا، ہماری حکومت نے بلین ٹرمی سونامی کا منصوبہ شروع کیا، کسی نے ماحولیات کا نہیں سوچا تھا بلکہ انہوں نے انگریز کے دور میں بنائے گئے جنگلات کٹوا دیے، پچاس سالوں میں ڈیم نہیں بنائے، ہم نے ڈیم بنانا شروع کیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت حسین نے کتاب میں لکھا تھا کہ کیسے

بنگلہ دیش اور بھارت 1990 کے بعد پاکستان سے آگے نکلے، وہ اس لئے آ گے نکلے کیوں کہ ان کی حکومتیں ٹھیک ہوگئیں جبکہ ہمارے ملک میں لوٹنے کے لیے یہ دو خاندان آ گئے، انہوں نے جتنا پیسہ بنایا ہے میں گارنٹی کرتا ہوں کہ ان کو خود نہیں پتہ کہ ان کے باہر ممالک میں کتنے بلین ڈالرز پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کبھی بھی اس ملک میں اجازت نہیں دینی چاہیے کہ کوئی اس ملک کی قیادت کرے جس کا سب کچھ پاکستان میں نہ ہو، کیا وجہ

ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر بننا چاہتے ہیں لیکن پیسہ ملک سے باہر ہے، اگر باہر پیسہ رکھا ہوا ہے تو اس کی تین وجوہات ہیں یا تو وہ چوری کا پیسہ ہے، یا پھر آپ ٹیکس بچانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ پیسہ باہر بھیج دیتے ہیں لیکن تیسری کیٹیگری ہے وہ اس لئے پیسہ باہر بھیجتی ہے کہ پاکستان کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے، اس ملک کی قیادت ان لوگوں کو کرنی چاہیے جس کا سب کچھ پاکستان میں ہے، اس کا جینا مرنا پاکستان میں ہو۔

موضوعات:



کالم



ڈنگ ٹپائو


بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…

کوفتوں کی پلیٹ

اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…