حسین نواز میاں نواز شریف کے بڑے صاحب زادے ہیں‘ ان کا زیادہ وقت اپنے والد کے ساتھ گزرا چناں چہ یہ ملک کے اہم ترین واقعات کے عینی شاہد ہیں‘ مجھے لندن میں ان کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا‘ میرے ذہن میں بے شمار سوالات موجود تھے‘ میں ان سے وہ سوال پوچھتا رہا اور یہ ان کے جواب د یتے رہے‘ ان کے پاس جس سوال کا جواب نہیں تھا انہوں نے صاف انکار کر دیا
اور جس کا جواب یہ نہیں دینا چاہتے تھے اس پر یہ خاموش رہے یا یہ کہہ کر دائیں بائیں ہو گئے مجھے یاد نہیں ہے‘ میں نے ملاقات کے دوران یہ اعتراف کیا ’’مریم نواز واقعی کام یاب لیڈر بن رہی ہیں‘ میری ان کے بارے میں رائے غلط ثابت ہوئی‘ میرا خیال تھا ان کا سیاسی ایکسپوژر نہیں ہے‘ یہ کلک نہیں کر سکیں گی لیکن یہ شریف فیملی کے اندر سے پہلی عوامی مقررہ اور بے نظیر بھٹو بن کر ابھر رہی ہیں‘ یہ اگر اس سپیڈ سے چلتی رہیں تو 2028ء میں یہ وزیراعظم ہوں گی‘‘حسین نواز کا جواب تھا ’’یہ سب ہمارے دادا میاں شریف کی دعائوں کا صلہ ہے‘ اتفاق گروپ کے بعد خاندان میں دراڑیں آ گئی تھیں‘ دادا جان کا دل ٹوٹ گیا تھا لہٰذا انہوں نے ماڈل ٹائون چھوڑ کر رائے ونڈ جانے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ اس وقت ویران اور بیابان علاقہ تھا‘ کھیتوں کے درمیان چھوٹا سا گھر تھا‘ میاں صاحب کے پرانے ملازمین تک نے وہاں جانے سے انکار کر دیا تھا‘ مریم نواز کے اس وقت دو بچے تھے‘ بیٹی مہرالنساء اور جنید صفدر‘‘ اس دوران جنید صفدر کمرے میں آگئے‘ حسین نواز نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’یہ اس وقت والدہ کی گودمیں ہی ہوتا تھا‘‘ میں جنید صفدر سے گیٹ پرملا تھا‘ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دوسری بار سلام کیا‘ حسین نواز نے بتایا مریم بہن اس وقت اپنے دونوں چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر دادا جان کے ساتھ رائے ونڈ شفٹ ہو گئیں‘ اس زمانے میں وہاں رات کے وقت بجلی بند ہو جاتی تھی‘ ایک رات بجلی بند ہوئی تو حبس اور گرمی کی وجہ سے مریم نواز کی بیٹی نے رونا شروع کر دیا‘ یہ بچی کو لے کرگاڑی میں گئیں‘ گاڑی سٹارٹ کی‘ اے سی چلایا اور بیٹی کو گاڑی میں سلا دیا‘
دادا تہجد کے لیے اٹھے‘ بچی کو گاڑی میں لیٹا ہوا دیکھا تو اگلے دن جنریٹر بھی لگوا دیا اور مریم نواز کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے گھنٹوں دعائیں بھی دیتے رہے‘ ہمارے دادا نیک اور مثبت انسان تھے‘ وہ زندگی کی آخری سانس تک مریم بہن کو دعائیں دیتے رہے‘
مجھے یقین ہے یہ ان کی دعائوں کا صدقہ ہے جس کے عوض یہ اپنا سیاسی مقام بناتی چلی جا رہی ہیں جب کہ 2014ء تک یہ ایک گھریلو خاتون تھیں‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن آپ کی پارٹی انہیں قبول نہیں کر رہی‘ پرویز رشید اور عرفان صدیقی کے علاوہ کوئی سینئر ان کے ساتھ نظر نہیں آتا‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’عوام کے ساتھ ساتھ پارٹی کو قائل کرنا بھی مریم نواز کی ذمہ داری ہے‘
یہ اگر اسی طرح چلتی رہیں تو وہ وقت بھی آ جائے گا‘‘۔میں نے ان سے پوچھا ’’کیا جنرل پرویز مشرف کے دور میں اٹل بہاری واجپائی نے جدہ میں میاں صاحب سے رابطہ کیا تھا؟‘‘ وہ بولے ’’جی ہاں جنرل مشرف نے جب بھارت کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات شروع کیے تو واجپائی صاحب نے ایس کے لامبا کو جدہ بھجوایا تھا‘ واجپائی صاحب نفیس سیاست دان تھے‘ وہ میاں صاحب کو میاں جی کہتے تھے‘
لامبا صاحب نے میاں صاحب کو پیغام دیا ’’ہم نے مل کر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن ہم کام یاب نہیں ہو سکے‘ وقت ہمیں ایک اور موقع دے رہا ہے‘ جنرل مشرف ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں‘ آپ اگر اجازت دیں تو کیا میں جنرل مشرف سے ڈائیلاگ شروع کر لوں‘‘ میاں صاحب نے خوش دلی سے جواب دیا‘ امن ذاتی اختلافات سے سپریم ہے‘ آپ کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کریں‘‘ میاں صاحب واجپائی صاحب کو کوئی تحفہ بھجواناچاہتے تھے لیکن ان کا خیال تھا وہ ایک سادہ انسان ہیں‘
وہ اسے توشہ خانہ میں جمع کرا دیں گے‘ والد صاحب کی خواہش تھی کوئی ایسی چیز بھجوائی جائے جسے وہ خود استعمال کریں‘ ہم جانتے تھے واجپائی صاحب کھانے پینے کے شوقین ہیں لہٰذا میں نے ان کے لیے اعلیٰ کوالٹی کی انجیریں خریدیں اور ایس کے لامبا کے ذریعے انہیں بھجوا دیں‘ واجپائی صاحب کی طرف سے باقاعدہ شکریہ کا پیغام آیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا میاں صاحب کا یہ ان سے آخری رابطہ تھا؟‘‘
حسین نواز نے جواب دیا ’’ہم مئی 2014ء میں جب نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں دہلی گئے تھے تو میاں صاحب واجپائی کی عیادت کے لیے ان کی رہائش گاہ پر گئے تھے‘ وہ اس وقت بہت علیل تھے‘ ڈیمنیشیا کی وجہ سے وہ کسی کو پہچان نہیں پاتے تھے‘ بھارتی حکومت کے پروٹوکول نے میاں صاحب کو روکا لیکن والد صاحب کا جواب تھا اس شخص نے مجھے اس وقت بھی یاد رکھا جب میں جلاوطن تھا‘
یہ مجھے آج پہچانیں یا نہ پہچانیں لیکن میں انہیں ضرور ملوں گا چناں چہ ہم ان کے گھر گئے اور ان کا حال احوال پوچھا‘ ان کی یادداشت اس وقت تک مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’میاں نواز شریف پر اس وقت یہ الزام لگا تھا مودی انڈیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا تھا اور آپ نے انہیں ساڑھیاں پیش کر دیں‘‘ حسین نواز کا جواب تھا
’’ہم نریندر مودی کی والدہ کے لیے ساڑھیاں لے کر گئے تھے‘ کیا کسی کی والدہ کو تحفہ نہیں دینا چاہیے؟‘‘ میں نے پوچھا ’’خواجہ آصف اور میاں نواز شریف کے درمیان تعلقات کی خرابی کی کیا وجہ ہے؟‘‘ حسین نواز ہنس کر بولے ’’یہ دونوں کلاس فیلو بھی ہیں اور دوست بھی‘ ان کے درمیان کبھی تعلقات خراب نہیں ہو سکتے‘‘ میں نے لقمہ دیا’’بلکہ اسحاق ڈار‘ خواجہ آصف اور میاں صاحب تینوں کلاس فیلوز اور جوانی کے دوست ہیں‘‘
یہ ہنس کر بولے ’’سو فیصد‘ گورنمنٹ کالج سے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’میاں صاحب ایک لحاظ سے خواجہ آصف کے فین بھی ہیں‘ یہ انہیں دلیر اور سمجھ دار سمجھتے ہیں چناں چہ میرا نہیں خیال دونوں میں کوئی اختلاف ہو گا‘‘ میں نے عرض کیا ’’میری معلومات کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے ایشو پر اختلافات ہوئے تھے‘‘
وہ ہنس کر بولے ’’آپ اپنی معلومات شیئر کریں اگر بات ٹھیک ہوئی تو میں تسلیم کر لوں گا ورنہ معذرت کر لوںگا‘‘ میں نے عرض کیا ’’7دسمبر 2019ء کو لندن میں پارٹی کی سینئر قیادت کا اجلاس ہوا تھا‘ اس میں حلف اٹھایا گیا تھا‘ یہ معلومات باہر نہیں جائیں گی‘ پارٹی نے دو فیصلے کیے تھے‘ ایک حکومت سے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا بل مانگا جائے گا
اور بل پڑھنے کے بعد حمایت یا انکار کا فیصلہ کیا جائے گا‘ دو‘ ہم اگر بل کی حمایت کریں گے تو وہ غیر مشروط ہوگی‘ ہم اس کے بدلے میں حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کچھ نہیں مانگیں گے‘ یہ طے ہونے کے بعد فیصلہ ہوا احسن اقبال مولانا فضل الرحمن کو پارٹی کے فیصلے سے مطلع کریں گے اور ایاز صادق پیپلز پارٹی کی قیادت کو بتائیں گے‘ حکومت کو اطلاع ہو گئی لہٰذا اس نے احسن اقبال کو مولانا سے ملاقات سے پہلے گرفتار کر لیا‘
پارٹی نے کسی دوسرے صاحب کو مولانا سے رابطے کا ٹاسک دیا لیکن وہ جان بوجھ کر مولانا سے نہیں ملے‘ رانا تنویر حسین نے مولانا کو میاں صاحب کا پیغام دیا مگر رانا تنویر کو میاں صاحب نے نہیں بھجوایا تھا‘ یہ کسی اور کی وجہ سے گئے تھے‘ دوسری طرف ایاز صادق پیپلز پارٹی سے ملے اور انہوں نے جوابی پیغام بھجوایا‘ سر بلاول بھٹو کی ڈیل ہو چکی ہے‘ یہ بل کے حق میں ووٹ دیں گے
اور حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ سے یہ بل پاس کرا لے گی‘‘ میں رکا اور ان سے پوچھا ’’میری معلومات درست ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’آپ اپنی بات مکمل کریں‘‘میں نے عرض کیا ’’ 7 جنوری 2020ء کو بل پر ووٹنگ ہونی تھی‘ خواجہ آصف نے اس دن پارلیمانی پارٹی کو کہا‘ میاں نواز شریف کی ہدایت ہے ہم بل کی غیرمشروط حمایت کریں گے
اور پارٹی نے بل کی حمایت میں ووٹ دے دیا جب کہ میاں صاحب نے خواجہ آصف کو اس قسم کی کوئی ہدایت نہیں دی تھی چناں چہ دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے‘ خواجہ آصف نے دو جولائی 2022ء کو مفتاح اسماعیل کے حق میں یہ بیان دے کر’’مفتاح اسماعیل نے مشکل حالات میں بہتر کردار ادا کیا ہے‘ ہماری ہمدردریاں وزیرخزانہ کے ساتھ ہیں‘‘
پارٹی کو مزید ناراض کر دیا کیوں کہ یہ بیان اس وقت دیا گیا جب اسحاق ڈار نے واپسی کا اعلان کر دیا تھا چناں چہ اب میاں صاحب کے ساتھ ساتھ ڈار صاحب بھی خواجہ صاحب سے ناراض ہیں‘‘ حسین نواز نے میری پوری بات سننے کے بعد مسکرا کر جواب دیا ’’نو کمنٹس‘ آپ کوئی اور بات کریں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ بات درست ہے حمزہ شہباز کوچیف منسٹر بنانے کا مشورہ رانا ثناء اللہ نے دیا تھا‘‘
وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’چودھری پرویز الٰہی کے یوٹرن کے بعد پارٹی حمزہ شہباز کو چیف منسٹر نہیں بنانا چاہتی تھی لیکن رانا ثناء اللہ نے کہا‘ یہ قدرت کا فیصلہ ہے‘ ہمیں اسے مان لینا چاہیے‘ ہم نے اگر جذباتی ہو کر کوئی فیصلہ کیا تو پارٹی تقسیم ہو جائے گی اور پارٹی کو یہ فیصلہ کرنا پڑ گیا‘ اسٹیبلشمنٹ بھی حمزہ شبہاز کے حق میں نہیں تھی‘‘
وہ ہنس کر بولے ’’یہ بات درست ہے‘ یہ فیصلہ ہمارا نہیں تھا‘ اللہ تعالیٰ کا تھا‘ پارٹی چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا چکی تھی‘ چودھری شجاعت حسین کی میاں صاحب سے فون پر بات بھی ہوئی تھی اور چودھری صاحب نے ق لیگ کو ختم کرنے اور اکٹھے چلنے کا عندیہ بھی دے دیا تھا لیکن پھر چودھری پرویز الٰہی نے یوٹرن لے لیا اور یوں پارٹی کے پاس حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا چودھری صاحبان نے آپ لوگوں کو یہ بتایا تھا‘
پشاور سے کسی صاحب نے صادق سنجرانی کے ذریعے چودھریوں کو یہ پیغام دیا تھا آپ عمران خان کے ساتھ ڈٹے رہیں‘ ملک میں کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آ رہی اور چودھری پرویز الٰہی نے یہ بات ان کو بھی بتا دی تھی جن سے یہ گفتگو خفیہ رکھی جا رہی تھی‘‘ حسین نواز نے ہنس کر جواب دیا
’’بھائی صاحب میں جدہ اور لندن میں رہتا ہوں‘ پاکستان کے اندر کیا ہونا ہے مجھے کیا پتا؟ آپ یہ بات چودھری پرویز الٰہی یا صادق سنجرانی سے پوچھیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ چودھری نثار کے بارے میں اپنی رائے پر آج بھی قائم ہیں؟‘‘
یہ سیدھے ہو کر بیٹھے اور سنجیدگی سے بولے ’’چودھری صاحب نے پارٹی اور میاں صاحب کو شدید نقصان پہنچایا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسے‘‘ وہ فوراً بولے ’’مثلاً آپ میاں نواز شریف کی بیماری کے ایام ہی کو لے لیجیے‘ چودھری صاحب ایک دن مریم نواز کے پاس آئے اور غصے سے کہا (جاری ہے)۔