لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور کے چاروں حلقوں میں سے تین حلقوں میں تحریک انصاف کو واضح برتری حاصل ہو گئی ہے، اب تک پولنگ اسٹیشنز سے موصول ہونے والے نتائج کے مطابق پی پی 158 لاہور میں تحریک انصاف کے میاں اکرم عثمان 16700 ووٹ لے کر آگے ہیں
جبکہ ن لیگ کے رانا احسن شرافت 13584 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، لاہور پی پی 167 میں اب تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار شبیر احمد گجر 13153 ووٹ لے کر پہلے نمبر پر ہیں جبکہ ن لیگ کے نذیر احمد چوہان نے اب تک 8078 ووٹ حاصل کئے ہیں، لاہور پی پی 168 میں ن لیگ کے امیدوار برتری حاصل کئے ہوئے ہیں ن لیگ کے امیدوار اسد کھوکھر نے اب تک 8575 ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنما محمد نواز اعوان 5195 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، لاہور پی پی 170 میں تحریک انصاف کے رہنما برتری حاصل کئے ہوئے ہیں انہوں نے اب تک 11174 ووٹ حاصل کئے ہوئے ہیں جبکہ ن لیگ کے محمد ذوالقرنین 6627 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، واضح رہے کہ ملتان میں تحریک انصاف کے رہنما زین قریشی 46 ہزار 427 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ن لیگ کے محمد سلمان نعیم نے 40 ہزار 250 ووٹ حاصل کئے ہیں، اس طرح غیر حتمی غیر سرکاری نتیجہ کے مطابق ملتان سے تحریک انصاف کے امیدوار جیت گئے ہیں، اب تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق تحریک انصاف سترہ نشستوں سے جیت رہی ہے، واضح رہے کہ متعدد ووٹرز الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ووٹرزلسٹ میں مبینہ غلطیوں کی شکایات کرتے ہوئے نظر آئے،
ووٹرز اپنے ووٹ آبائی حلقوں سے دوسرے حلقوں میں منتقل ہونے کی شکایات کرتے رہے۔ ماضی کی طرح ضمنی انتخابات میں بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ووٹرزلسٹ میں مبینہ طور پر غلطیاں سامنے آئیں۔ پولنگ اسٹیشنز پہنچنے والے ووٹرز اپنے ووٹ تلاش کرتے رہے لیکن ووٹر لسٹ میں ان کے نام ہی درج نہیں تھے۔الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس سے استفادہ کئے بغیر پولنگ سٹیشنز آنے والے متعدد ووٹرز بھی ووٹ
دوسرے حلقوں میں منتقل ہونے کی وجہ سے پریشانی کا شکار نظر آئے۔کئی حلقوں میں یہ شکایات دیکھی گئیں کہ خاندان کے کچھ افراد کے ووٹ آبائی حلقوں میں موجود ہیں جبکہ کچھ کے ووٹ دوسری جگہوں پر منتقل ہو گئے ہیں۔تحریک انصاف کی مرکزی رہنما عندلیب عباس اور مسرت جمشید چیمہ کی جانب سے ووٹرزکو درپیش کے حوالے سے احتجاج کیا۔ووٹروں کو گھروں سے لانے کیلئے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے استعمال پر پابندی کی دھجیاں
بکھیر دی گئیں۔ مختلف حلقوں میں ویگنیں،کیری ڈبے اورچنگ چی رکشے ووٹرز کو گھرو ں سے پولنگ اسٹیشنزلانے کیلئے گلی محلوں کے چکر کاٹتے رہے۔ٹرانسپورٹ پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اورامیدواروں کے اسٹیکر زبھی چسپاں تھے۔جب ڈرائیورز سے پوچھا گیا تو ان کا کہناتھاکہ انہیں صرف یہ معلوم ہے کہ کس شخص نے معاوضہ دیناہے اور وہ ہم نے اپنا معاوضہ پیشگی وصول کر لیا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں
اورآزادامیدواروں سے پوچھا گیا توانہوں نے کہاکہ ان کی طرف سے ایساکوئی انتظام نہیں کیا گیا سپورٹرزنے اپنے طو رپر یہ انتظام کیا ہے۔ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے نظام میں مطلوبہ استعداد نہ ہونے کی نشاندہی بھی ہوئی۔متعدد پولنگ اسٹیشنز پر ووٹروں کا غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا۔رش ہونے کے باوجود پولنگ کا عمل انتہائی سست روی کا شکار رہا جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی دیر تک قطاروں میں کھڑے رہ کر انتظار کرنا پڑا۔