کراچی (این این آئی)اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید 125 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 13.75 سے بڑھا کر 15 فیصد کر دی ہے جبکہ قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا ہے کہ بجلی اور پٹرول پر سبسڈی ختم کر نے کی وجہ سے عام آدمی پر بہت
دبائو آرہا ہے ،سب سے اہم مقصد مہنگائی کنٹرول کر نا ہے ،عالمی سطح پر چندوجوہات کی بناء پر مہنگائی بڑھی،دنیا بھر میں ماحول غیریقینی ہے،’اگلے ایک سال تک مہنگائی 18 سے 20 فیصد ہوگیقائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے، کھانے پینے کی اشیا بہ مہنگی ہوگئی ہیں، پھر حکومت نے ابھی مشکل فیصلہ کیا ہے جو صحیح فیصلہ تھا کہ بجلی اور پیٹرول کی سبسڈی ختم کردی جائے۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے عام آدمی پر بہت دباؤ آرہا ہے، اسٹیٹ بینک اور زری پالیسی کمیٹی اس چیز پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے عام آدمی کے لیے بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ مہنگائی کنٹرول کرنا اب ہمارا سب سے اہم مقصد ہے تاکہ ہمارے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔قائم مقام گورنر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شرح سود کو 1.25 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی جائے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے، 1970 کے بعد مارکیٹ میں اتنی زیادہ مہنگائی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ کووڈ کے بعد جب معیشتیں بحال ہونے لگیں تو طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا اور شپنگ اور دیگر مد میں لاگت میں اضافہ ہونے لگا۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ خیال تھا کہ قیمتیں بتدریج نیچے آنا شروع ہوں گی تاہم فروی میں روس یوکرین جنگ کے بعد اشیا کی چیزیں اور بھی اوپر چلی گئیں اور عالمی مسئلہ بھی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے اندرونی سطح پر بھی چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے، سب سے پہلی یہ ہے کہ مالی سال 2021 اور 2022 میں ہم نے بہت تیزی سے شرح نمو دیکھا جو تقریباً 6
فیصد تھی۔انہوںنے کہاکہ ویسے تو 6 فیصد شرح نمو بڑی اچھی چیز ہے لیکن دو سال تک شرح نمو 6 فیصد رہے تو ہماری معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ مسئلے شروع ہوجاتے ہیں، مہنگائی شروع ہوتی اور کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ آجاتا ہے۔ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ شرح نمو میں ہماری تیز رفتاری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بدقسمتی سے مالی وسعت ہوگی اور اس وجہ سے بھی طلب بڑھ گئی اور اس سال پھر سے شرح نمو 6 فیصد ہوگئی حالانکہ رواں
سال تھوڑی سی کم ہونی چاہیے تھی تو اس وجہ سے بھی مہنگائی ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے وہ بڑا مشکل اور غیریقینی ہے، دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے سربراہان پریشان ہیں کیونکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی ہے اور اس قسم کی مہنگائی ہم نے کوئی 50 سے 60 برسوں بعد دیکھی ہے۔انہوںنے کہاکہ مہنگائی دنیا میں سب کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے اور پاکستان کے لیے بھی چیلنج ہے لیکن جس طرح ہم نے کووڈ
کا مقابلہ کیا تھااسی طرح اس مرحلے سے بھی نکل آئیں، مشکل مرحلہ ضرور ہے کیونکہ ایک سال تک مہنگائی بلند رہے گی۔انہوں نے کہا کہ اشیا کی قیمتیں اوپر گئی ہیں تو ایک سال تک مہنگائی رہے گی لیکن ہم کوشش کریں گے کہ مزید نہیں بڑھے تاکہ آم آدمی پر مزید باؤ نہ پڑے۔’ائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اگر ہم شرح سود آج نہیں بڑھاتے تو خدا نخواستہ مزید برے نتائج ہوسکتے تھے، مہنگائی پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا، ہائپر انفلیشن
ہوسکتی تھی جو کئی ممالک میں ہوچکی ہے، اس سے یہ ہوتا کہ ایک دن کسی چیز کچھ ہوتی اور اگلے 100 فیصد بڑھ جاتی۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہمارے ذخائر اور کرنسی پر بھی مزید دباؤ آسکتا تھا اور ہم ایک بری صورت حال میں بھی پھنس سکتے تھے، حالات اس وقت بھی خراب ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ خراب ہوسکتے تھے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے خیال اگلے مالی سال 2023 میں شرح نمو 3 سے 4 فیصد کے درمیان ہوگی جو ایک اچھی
شرح ہے، اس سے مہنگائی کے مزید بڑھنے کا خطرہ کم ہوگا۔قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسی طرح اگلے سال کے لیے مہنگائی 18 سے 20 فیصد دیکھ رہے ہیں کیونکہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں قیمتوں کی سطح آگئی ہے وہاں سے مزید اوپر نہ جائے۔انہوںنے کہاکہ ہم ماہانہ بنیاد پر مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، سالانہ بنیاد پر ہونے والی مہنگائی بدقسمتی سے اگلے 12 مہینوں کے لیے 18
سے20 فیصد رہے گی۔ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ عام آدمی پر بہت دباؤ ہوگا تو کوشش کریں گے غریب طبقے کو بچایا جا سکے اور صاحب ثروت افراد کوشش کریں کہ ٹیکسز اور قیمتوں کا بوجھ زیادہ اٹھائیں، ٹارگٹڈ سبسڈیز کے ساتھ ہو تاکہ عام آدمی کو فائدہ پہنچے۔انہوں نے کہا کہ غذائی اشیا پر مہنگائی پر قابو پایا جائے، اس کو مانٹیری پالیسی کنٹرول نہیں کرسکتی لیکن کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں کم کرنے کے لیے اور چیزیں کی جاسکتی ہیں جیساکہ اشیا کی پیداوار میں اضافہ کریں اور سپلائی میں جو تعطل آتا ہے اس پر قابو پایا جائے کیونکہ اس سے عام آدمی زیادہ متاثر ہوتا ہے۔