ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ریٹائرڈ ججز کو گاڑی فراہم کرنے کی تجویز باعث شرم ہے، جسٹس فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط

datetime 25  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر ریٹائرڈ ججز کو گاڑی فراہم کرنیکی تجویز کو نامناسب اور باعث شرم قرار دیدیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی

نے فل کورٹ کے ذریعے ریٹائرڈ ججز کو مراعات دینے کی مخالفت کی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاکہ ریٹائرڈ ججز کو گاڑی فراہمی کی تجویز نامناسب اور باعث شرم ہے، عدالتی ضابطہ اخلاق اور حلف کے تحت جج خود کو مراعات کے لیے عہدے کا استعمال نہیں کرسکتا۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاکہ آخری فل کورٹ میٹنگ 12 دسمبر 2019 کو ہوئی، انصاف کی فراہمی کو متاثر کرنے والے کئی اہم معاملات 2019 سے توجہ طلب ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ کی ان معاملات کے بجائے نظر عوامی وسائل کی طرف ہے، رجسٹرار نے فل کورٹ کی منظوری کیلئے ایک سرکلر بھجوایا جس میں ریٹائرڈ ججز کو گاڑیاں فراہم کرنے کے لیے فل کورٹ کی منظوری مانگی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ مجھے یکم جون کو یہ انتہائی باعث شرم تجویز موصول ہوئی، اسی روز رجسٹرار سے کہا کہ وہ قانون یاضابطہ بتائیں جس میں فل کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے، رجسٹرار بجائے غیر قانونی کام روکنے کے یہ کہہ رہے ہیں کہ جج اپنے حلف سے روگردانی کریں، ریٹائرڈ ججز کے لیے مراعات کی تجویز دینا جج کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریٹائر ہونے کے بعد اس کا براہ راست فائدہ ہم ججز کو ہوگا، ججز کے حلف میں شامل ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق پر عمل کریگا، ریٹائرڈ ججز کیلئے مراعات کی منظوری کا مطلب یہ ہے کہ ہم بطور جج اپنا عہدہ ذاتی فائدے کیلئے استعمال کریں گے،

جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگا۔قاضی فائز عیسٰی کے مطابق رجسٹرار اور ہم ججز کو علم ہونا چاہیے کہ ہمارے عہدے کے تقاضے کیا ہیں، رجسٹرار کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ہر جج کی جانب سے کچھ بھی کر سکتا ہے، ریٹائرڈ جج کو کسی بھی قسم کی مراعات دینے کی تجویز سے اختلاف کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریٹائرمنٹ سے کچھ ماہ پہلے فل کورٹ میٹنگ بلائی،

اس فل کورٹ میٹنگ میں ریٹائرڈ چیف جسٹس کے لیے گریڈ 16 کے سیکرٹری کی منظوری لی گئی، فل کورٹ سے 2018 میں منظوری اس وقت لی گئی جب مجھ سمیت کئی ججز چھٹیوں پر تھے،جب فل کورٹ منٹس منظوری کے لیے مجھے بھجوائیگئے تو میں نے اعتراض لگایا اور اختلاف کیا۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت جس کے مقدمات عدلیہ کے سامنے ہوں وہ فل کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرسکتی؟۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…