اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پرسنل انکم ٹیکس میں 47 ارب روپے کا مجوزہ ٹیکس ریلیف آئی ایم ایف کے لیے بالکل ناقابل قبول ہے لہٰذا حکومت کے پاس اس میں تبدیلی لانے پر غور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق
اعلیٰ سرکاری ذرائع نے تصدیق کی کہ آئی ایم ایف نے پرسنل انکم ٹیکس کی شرحوں میں مجوزہ شرحوں پر اپنے واضح تحفظات سے آگاہ کیا جس میں ایف بی آر نے ماہانہ بنیادوں پر دس لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کو ریلیف دیا ہے۔ آئی ایم ایف صرف ان لوگوں تک ریلیف محدود کرنا چاہتا ہے جو ماہانہ 2 لاکھ روپے تک کما رہے ہیں اور پھر دیگر تمام سلیبوں میں ٹیکس کی شرحوں کو بڑھانا چاہتا ہے۔ پی ٹی آئی کی زیرقیادت حکومت میں چھٹے جائزے کے موقع پر آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق اس وسیع معاہدے کے برعکس جسے فنڈ کے معاہدے کے تحت ساختی معیار کے طور پر رکھا گیا تھا، ایف بی آر نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ فنانس بل 2022 کے ذریعے 2022-23 کے بجٹ میں ماہانہ بنیادوں پر 10 لاکھ روپے تک تنخواہ حاصل کرنے والوں کے لیے ریلیف کی تجویز پیش کی۔ پی آئی ٹی کے یہ مجوزہ نرخ اگر تبدیل نہ کیے گئے تو آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح پر ہونے والے معاہدے کے لیے بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ سابق ڈائریکٹر جنرل اکنامک ریفارم یونٹ وزارت خزانہ ڈاکٹر خاقان نجیب نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کی صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ مجوزہ سلیبوں میں تبدیلی لانا ہے جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے پیشگی شرط ہوگی۔ انہوں نے تبدیلیوں کی وضاحت کی کہ ریلیف 2 لاکھ روپے ماہانہ دیا جائے۔