اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدار آنے کے ایک سال کے اندر اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں کی غریب آبادی کیلئے جدید سہولیات سے لیس کینسر ہسپتال کی تعمیرروک دی تھی، جسے موجودہ حکومت وزارت منصوبہ بندی کی منظوری کے بعد دوبارہ شروع کرنے پر غور کر رہی ہے۔ایک ویب سائٹ نے دستیاب دستاویزات کے حوالے سے بتایا کہ 200 بیڈز پر مشتمل ایک کینسر ہسپتال
کا منصوبہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں منظور ہوا تھا جس کیلئے حکومت نے پی ایس ڈی پی کے تحت پانچ ارب روپے بھی منظور کیے تھے،اس کینسر ہسپتال سے سالانہ سات ہزار غریب مریضوں نے مستفید ہونا تھا تاہم پی ٹی آئی حکومت نے جنوری 2019 میں قدرے خاموشی سے منصوبہ ختم کر دیا تھا۔منصوبے کی پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ عیسانی نے تصدیق کی کہ منصوبہ لانچنگ کے لیے مکمل تیار تھا اور پمز کے احاطے میں اس کے لیے جگہ مختص کرکے عمارت کی تعمیر کے لیے پی ڈبلیو ڈی نے ڈیزائن بھی تیار کر لیا تھا اور نقشے بھی منظور کر لیے گئے تھے۔انہوںنے کہاکہ منصوبے کے لیے کنسلٹنٹس بھی ہائیر کر دیے گئے تھے جب انہیں پتا چلا کہ منصوبہ ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ڈاکٹر عائشہ عیسانی کے مطابق سرکاری کینسر ہسپتال کے پی سی ون میں طے تھا کہ اس میں ریڈیالوجی، ایم آر آئی اور سی ٹی سکین جیسی تمام جدید سہولیات مہیا کی جائیں گی تاہم اس اچانک فیصلے کی وجوہات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سرکاری ملازم ہیں اور کسی قسم کے سیاسی معاملات میں نہیں پڑنا چاہتیں۔دستیاب بجٹ دستاویزات کے مطابق منصوبے کے لیے سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے 1998 ملین روپے کی رقم سال 19-2018 کے بجٹ میں مختص کی تھی۔اپریل 2018 میں انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ
مسلم لیگ ن کی حکومت نے عمران خان کی جانب سے لاہور اور پشاور میں کینسر ہسپتالوں کی تعمیر کے بعد اسلام آباد میں سرکاری سطح پر ایک کینسر ہسپتال کی تعمیر کے منصوبے کی منظوری دی ہے جس پر پانچ عشاریہ ایک پانچ ارب روپے کی لاگت آئے گی۔پھر اگست میں برسراقتدار آنے والے وزیراعظم عمران خان نے خود بھی دسمبر 2018 میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاق اور صوبہ خیبرپختونخواہ کے صحت کے حکام نے
شرکت کی تھی۔ اجلاس کے بعد جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں 200 بیڈز پر مشتمل پہلے کینسر ہسپتال کا منصوبہ منظور کر لیا گیا ہے تاہم اچانک 17جنوری 2019 کو سرکاری خبر رساں یجنسی نے خبر دی کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں علیحدہ کینسر ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس کے بجائے پمز ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے لیے مختص بیڈز کی تعداد بڑھانے اور متعلقہ عملہ بھرتی کرنے کا فیصلہ
کیا گیا ہے۔امریکہ میں موجود سابق وزیراعظم عمران خان کی صحت کے حوالے سے ٹاسک فورس کے اس وقت کے انچارچ نوشیروان برکی کے مطابق پمز میں ہسپتال کی تعمیر روکنے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام آباد کے کینسر ہسپتال کا کانسیپٹ غلط تھا’اس لیے ہم نے سفارش کی تھی کہ اسے نہ بنایا جائے اور حکومت نے اسے بند کر دیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کینسر
کے حوالے سے درکار مہارتیں موجود نہیں تھیں،پمز میں این کالوجی یعنی کینسر کا کوئی وارڈ موجود نہیں تھا اس لیے ہم نے تجویز کیا تھا کہ پہلے یہاں وارڈ بنائیں پھر اس کو توسیع دیں تاہم پمز ہسپتال کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ڈاکٹر برکی کے دعوے سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا کہ پمز میں آن کالوجی کا شعبہ 15 سال سے بھی زائد عرصے سے موجود ہے اور اس کے لیے بیڈز پہلے جنرل وارڈز میں مختص تھے پھر نیفرالوجی اور ا?ن کالوجی کا وارڈ علیحدہ کر دیا گیا ہے
اور باقاعدہ کینسر کے ڈاکٹرز بھی ادارے میں موجود تھے۔ایک سوال پر ڈاکٹر برکی نے بتایا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ ہم شوکت خانم کے مقابلے پر کوئی اور ہسپتال نہیں بننے دینا چاہتے تھے، بلکہ پشاور کا شوکت خانم تو 2015 میں بن گیا تھا اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں زیادہ کینسر ہسپتال بنیں، کیونکہ ان کی ضرورت ہے، تاہم ہم چاہتے تھے پمز میں اس پر مرحلہ وار کام ہو۔موجودہ حکومت کے وزیر صحت قادر پٹیل نے کہا کہ وہ سرکاری سطح پر اسلام آباد میں کینسر ہسپتال کی تعمیر روکے جانے کے معاملے کی چھان بین کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی منظوری ملی تو اس منصوبے کو دوبارہ سے بحال کر دیا جائے گا۔