ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا ،مشترکہ پریس کانفرنس میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان

30  مارچ‬‮  2022

اسلام آباد (این این آئی)متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے متحدہ اپوزیشن کیساتھ معاہدے پر دستخط کے بعد حکومت سے باضابطہ علیحدگی کا اعلان کردیا جس کے بعد منحرف حکومتی ارکان کے بغیر ہی متحدہ اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اکثریت مل گئی ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کرتے

ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دے کر نئی روایات قائم کرسکتے ہیں، اگر وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیتے تو آئیں اسمبلی سیشن میں تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں اپنی اکثریت ثابت کریں،بہت جلد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم منتخب ہوں گے،ایم کیو ایم کے ساتھ حقیقی معاہدہ طے پایا ہے یہ کوئی جعلی خط نہیں ،کراچی اور پاکستان کی ترقی کیلئے سب کو ملکر محنت کرنا ہوگی ۔ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے یہ اعلان اپوزیشن لیڈر شہبا زشریف ، پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زر دار ی، جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ،بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ خالد مگسی ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے پریس کانفرنس میں کیا ۔ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس معاہدے کی کوئی شق ہمارے سیاسی فائدے کیلئے نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد کیلئے ہے۔

انہوں نے کہاکہ اپنے سیاسی مفادات پر ہم نے پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما نے کہا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے، آج کے دن ہم ایسی سیاست کا آغاز کرنا چاہتے ہیں جہاں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے، آج کامیابی سے زیادہ امتحان کا دن ہے، چاہتے ہیں سیاسی اختلافات ختم کرکے آگے بڑھیں، آج قوم کو ایک امتحان کا سامنا ہے جس سے گزرنا ہے۔

خالد مقبول نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں سیاسی اختلافات ختم کرکے آگے بڑھیں، ایسے دور کا آغاز کریں جہاں سیاسی اختلاف ، ذاتی دشمنی نہ سمجھی جائے، تبدیلی کے اس سفر میں اب متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں، امید ہے آنے والی تبدیلی ملک کیلئے اچھی ثابت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ اسمبلی میں ہماری 26 نشستیں تھیں جن کو 7 کردیا گیا، اس کے باوجود نہ ہماری 7 نشستوں کے بغیر حکومت بن سکتی ہے اور نہ ہی جاسکتی ہے۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے، شاید دہائیوں میں ایسا موقع آیا جب پوری قومی سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر قومی جرگہ کی صورت میں موجود ہے۔شہباز شریف نے کہاکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے ملاقات کی اور 20 منٹ میں معاملات طے ہوگئے۔

یہ حقیقی معاہدہ ہے، یہ کوئی جعلی خط نہیں ہے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے کر نئی روایات قائم کرسکتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ امید تو نہیں لیکن چاہتے کہ عمران خان جمہوریت روایت کی پاسداری کریں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم چاہے سلیکٹڈ ہی کیوں نہ ہو۔

جمہوریت کا طریقہ اور روایت ہے کہ اگر وہ عددی اکثریت کھو بیٹے ہیں تو ایک نئی ریت اور روایت قائم کریں اور استعفیٰ دیں۔انہوں نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد کے بعد معاملات پر بات چیت بہت حد تک مکمل ہوگئی، ایک دو نکات پر بات جاری ہے، وہ بھی جلد حل ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کا معاہدہ قائم رہے گا اور اس پر عمل بھی ہوگا، 22 کروڑ عوام کا مقدمہ متحدہ اپوزیشن، بی اے پی اور ایم کیو ایم لڑنے جارہی ہے۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی اور پاکستان کی ترقی کیلئے اچھا فیصلہ کیا، کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لیے اب مل کر محنت کرنی ہے۔بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے عوام مزید خشخبریاں سنیں گے، ہم نئے سفر کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کا تحریک عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں۔

دونوں پارٹیوں کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک ساتھ چلنا ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، لہذا عمران خان استعفیٰ دیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا اگر وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیتے تو آئیں اسمبلی سیشن میں تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں اپنی اکثریت ثابت کریں۔بلاول بھٹو نے کہاکہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی۔

بہت جلد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم منتخب ہوں گے۔پی پی اور ایم کیو ایم میں دوری کے باعث کراچی کا نقصان ہوا، اب تمام قومی قیادت ایک صفحے پر جمع ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، عمران خان وزیراعظم نہیں رہے اور ان کے پاس استعفی کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا۔

متحدہ اپوزیشن کی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ اور جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ساڑھے تین سال قبل اس ڈرامے کا آغاز ہوا تھا اب اس کا خاتمہ قریب ہے، آج اس سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ساڑھے تین سال قبل آنے والی نحوست کے خاتمے اور اس سے نجات دلانے میں کارکنوں سے اہم کردار ادا کیا۔

ان کی بے توقیری کی سیاست نے ملک کی اخلاقی، سماجی بنادیں ہلادیں، آج اس جھوٹ پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہو گیا، جن دوستوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ان کے پاس اب بھی وقت ہے ، انہیں چاہیے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دے کر قومی دھارے میں شامل ہوں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس وقت ہمیں قومی اسمبلی کے 175 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

وزیر اعظم عمران کان مستعفی ہوں۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہاکہ جس اتحاد اور یکجہتی کا آج قومی قیادت کی جانب سے اظہار کیا گیا اسی جذبے کی ملکی ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس وقت ہمیں قومی اسمبلی کے 175 اراکین کی حمایت حاصل ہے، وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوں۔انہوںنے کہاکہ ڈراؤ مت، تمہیں کسی نے کوئی دھمکی نہیں دی، تمہاری حیثیت کیا ہے جو تمہیں کوئی دھمکی دے یا تمہارے خلاف سازش کرے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ہو کیا چیز، ایسی باتیں کر کے تم اپنی اہمیت بڑھانا چاہتے ہو۔انہوں نے کہاکہ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے، سازش ان کے خلاف نہیں، بلکہ ان کو اقتدار میں لانا ملک کے خلاف سازش تھی، اس عالمی سازش کے تحت ہی ماورائے قانون اقدامات کیے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جس اتحاد اور یکجہتی کا آج قومی قیادت کی جانب سے اظہار کیا گیا اسی جذبے کی ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم کے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں، معاہدے کے اثرات اور ثمرات پاکستان کے عوام تک پہنچیں گے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے بھی وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم عمران خان کی پرانے سیاسی اتحادی ہیں۔

ہم سیاسی بات کریں گے، عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے، استعفیٰ دیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ نہ بولڈ ہونگیں نہ کیچ آؤٹ ہونگیں، یہ ہٹ وکٹ ہونگیں، آج وہ ہٹ وکٹ ہوچکے، ان کا اپنا ہی بیٹ ان کی وکٹ کو لگ چکا، خان صاحب آپ کو کرکٹ کا تجربہ زیادہ ہوگا لیکن ہماری سیاست کا تجربہ آپ سے بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی سازشوں کا چورن بہت پراناہے، یہ اب بکنے والا نہیں بلکہ کوئی نیا چورن لاؤ، بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، ہمیں نہ نیا پاکستان چاہیے، نہ پرانا پاکستان چاہیے، ہمیں مختلف پاکستان چاہیے جہاں ہمیں جینے کے حقوق حاصل ہوں۔اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں مختلف پاکستان چاہیے جس میں جینے کا حق ہو، ہر صوبے کے پاس اس کے وسائل کا اختیار ہو۔

لوگوں کے ساتھ انسان کے طور پر برتاؤ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا پاکستان چاہیے جہاں میرے بچے لاپتہ نہ ہوں، والدین رو رو کر نابینا نہ ہوجائیں، ایسے پاکستان کا کیا فائدہ جہاں والدین اپنے بچے دیکھ نہ سکیں۔بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے کہا کہ نہ نیا، نہ پرانا بلکہ عوامی پاکستان ہونا چاہیے، رات جو معاہدہ ہوا وہ ایم کیو ایم کا حق تھا۔

پیپلزپارٹی نے معاہدہ کرکے تسلیم کیا کہ ہم سب ایک ہیں۔متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے پر باضابطہ دستخط ہوگئے، چارٹر آف رائٹس معاہدے پر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، مولانا فضل الرحمٰن، سردار اختر مینگل، خالد مگسی نے دستخط کیے۔قبل ازیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گزشتہ رات ہونے والے معاہدے کی توثیق کردی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما نسرین جلیل نے کراچی میں پارٹی کے مرکز کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس پیش رفت کی تصدیق کی۔واضح رہے کہ گزشتہ رات گئے پارٹی نے اپوزیشن لیڈرز کے ساتھ ملاقات کی تھی جس نے دارالحکومت میں کافی ہلچل مچادی تھی۔ابتدائی طور پر خواجہ آصف، شیری رحمن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔

انہوں نے ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور دیگر رہنماؤں سے بات چیت کی تھی۔ملاقات کے دران مشترکہ اپوزیشن نے کوشش کی کہ ایم کیو ایم فوری طور پر کسی فیصلے کا اعلان کردے لیکن ایم کیو ایم پاکستان نے اتنی رات گئے کوئی حتمی بیان دینے سے گریز کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے دن اپنے فیصلے کا اعلان کرے گی۔

قبل ازیں خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔بعد ازاں حزب اختلاف کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول، مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف بھی رات 2 بجے کے قریب وہاں پہنچے تھے تاکہ حکومتی اتحادی کو رخ بدلنے پر آمادہ کیا جا سکے۔اس بات کی تصدیق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی تھی۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…