اسلام آباد(آئی این پی )پاکستان 2050تک 40ہزار میگاواٹ جوہری بجلی پیدا کرے گا،ملک بھر میں 32نیوکلئیر پاور پلانٹس لگائے جائیں گے،سستی بجلی سے قومی خزانے کو فائدہ ہو گا،1100سو میگا واٹ کے تھری جوہری بجلی گھر نیشنل گرڈ سے منسلک،2030 تک پاکستان اپنی 60 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کرے گا۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 2030 کے
آخر تک 8,800 میگاواٹ اور 2050 تک جوہری توانائی سے 40,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو کہ ملک کی توانائی کے مجموعی مرکب کا ایک چوتھائی ہو گا، پاکستان اس صدی کے وسط تک کل 32 جوہری پاور پلانٹس لگانے کا ارادہ رکھتا ہے جو بالآخر اسے صفر کاربن کے اخراج والی صاف توانائی میں تبدیل کرنے کے قابل بنائے گا۔پاکستان کے پاس توانائی کے بے شمار ذرائع ہیں اور جوہری توانائی ان میں سے ایک ہے۔وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کے مطابق پاکستان 2050 تک تمام قسم کے قابل تجدید اور کم کاربن توانائی کے ذرائع کو بروئے کار لا کر کاربن کے اخراج کو مکمل روکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ حکومت اپنے ہوا، پن بجلی، شمسی اور جوہری توانائی کے وسائل کو گزشتہ سال گلاسگو میں منعقدہ کانفرنس آف پارٹیز کے طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے گی،انہوں نے بتایاکہ ملک میں اس وقت چھ نیوکلیئر پاور سٹیشنز ہیںجن میں 1,100 میگاواٹ کا کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ کے تھری بھی ہے جسے نیشنل گرڈ میں بھی شامل کر دیا گیا ہے جس سے ملک کی جوہری توانائی میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ جوہری توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل یہ یونٹس بجلی کی طلب کو پورا کرنے میں مدد کریں گے جو کہ گرمیوں کے موسم میں تقریبا 25,000 میگاواٹ اور سردیوں میں 12,000 میگاواٹ ہوتی ہے۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ اس نے1100میگاواٹ کے تھری بجلی گھرکو آزمائشی بنیادوں پر قومی گرڈ سے منسلک کر دیا ہے اور اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بتدریج بڑھایا جائے گا۔ پلانٹ کے باضابطہ افتتاح سے پہلے ٹیسٹ کے لیے دو سے چار ہفتے درکار ہوں گے۔ K-3، K-2 کے بعد دوسرا جوہری پاور پلانٹ ہے جس کی پیداواری صلاحیت 1,100 میگاواٹ ہے۔ نیشنل گرڈ میں مزید جوہری توانائی کے اضافے سے ملک میں بجلی کے نرخوں کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔K-
3 اور K-2 کراچی کے قریب واقع ہیں۔ K-2 کا افتتاح گزشتہ سال مئی میں وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا۔اس سے قبل تمام جوہری پاور پلانٹس کی اجتماعی پیداواری صلاحیت 2,400 میگا واٹ سے زیادہ تھی جو K-3 کے اضافے کے ساتھ بڑھ کر 3,500 میگاواٹ ہو گئی ہے۔جوہری توانائی کی صنعت کو صفر کاربن کے اخراج کے ساتھ بجلی کا ایک محفوظ، قابل اعتماد اور اقتصادی طور پر مسابقتی
ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔پاکستان کا موجودہ انرجی مکس تقریبا 58 فیصد فوسل فیول، 30 فیصد ہائیڈرو پاور اور 10 فیصد قابل تجدید ذرائع اور جوہری توانائی پر مشتمل ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ 2030 تک پاکستان اپنی 60 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے پیدا کرے گا۔جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے ذریعے جوہری توانائی پیدا کرنے پر پاکستان کی توجہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔جوہری ٹیکنالوجی کے فوائد متنوع ہیں اور یہ بہت سے شعبوں میں پایا جا سکتا ہے جن میں طب، صحت، زراعت، صنعت، آبی وسائل کا انتظام اور بجلی کی پیداوارشامل ہیں۔