اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمر ان خان نے پٹرول اور ڈیزل 10،10 روپے فی لیٹر، بجلی 5 روپے فی یونٹ سستی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ اگلے بجٹ تک دونوں چیزوں کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کرینگے ،پاکستان میں آج بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں دوسرے ممالک سے کم ہیں ،موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے پاس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا حل ہے تو بتائیں،
نوجوانو ں کو30 ہزار روپے کی انٹرن شپ، احساس پروگرام پر 12 کے بجائے 14 ہزار ملیں گے،اخبارات میں 70فیصد خبریں ہمارے خلاف ہیںاس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ،سوشل میڈیا پر وزیراعظم کو بھی نہیں بخشا جا رہا،سوشل میڈیا پر آنے والے گند کو روکنے کیلئے پیکا قانون لے کر آرہے ہیں ،دہشتگردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے 80ہزار پاکستانیوں کی شہادتیں ہوئیں، 35لاکھ لوگوں کی نقل مکانی ہوئی، قبائلی علاقہ تباہ ہوا، ملک کو 150ارب ڈالر سے زائد نقصان ہوا،400 سے زائد ڈرون حملے کیے گئے، جنرل مشرف کے دور میں صرف 10 ، جو دو جمہوری لیڈرز آصف زرداری اور نواز شریف کے 10سال میں 400ڈرون حملے کیے، کیا اس وقت دو جمہوری رہنماؤں کو کوئی اسٹینڈ نہیں لینا چاہیے تھا، قوم آزاد خارجہ پالیسی چاہتی ہے تو کبھی ان پارٹیوں کو ووٹ نہ دیں جس کے پیسے، دولت اور جائیداد پاکستان سے باہر پڑے ہوں ،وہ کبھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنائیں گے۔پیر کو پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے ملکی خارجہ پالیسی پر خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حال ہی میں دو دورے کیے، ان میں سے ایک چین اور دوسرا روس کا تھا۔انہوںنے کہاکہ دنیا میں تیزی سے صورتحال بدل رہی ہے اور اس کے پاکستان پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب سے میں نے سیاست شروع کی تو میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہو، آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم اپنے لوگوں کے فائدے کے لیے خارجہ پالیسی بنائے اور وہ پالیسی نہ بنائے جو کسی اور کے فائدے کا سبب بنے اور اپنے ملک کو نقصان پہنچا دے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے جب امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تو میں شروع سے کہتا تھا کہ
ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا، نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، میں اس وقت سے کہتا تھا کہ ہمیں اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔عمران خان نے کہا کہ ہم نے پہلے امریکا کی جنگ میں سوویت یونین کے خلاف شرکت کی اور جب 10سال کے بعد پھر شرکت کی تو پہلے وہ جہاد تھا تاہم جب امریکا افغانستان آیا تو اس نے اسے دہشت گردی کا نام دے دیا، میں اس پالیسی کے خلاف تھا کیونکہ یہ خارجہ پالیسی پاکستانیوں کے فائدے کیلئے نہیں بنائی گئی۔
وزیر اعظم نے کہاکہ اس جنگ کی وجہ سے 80ہزار پاکستانیوں کی شہادتیں ہوئیں، 35لاکھ لوگوں کی نقل مکانی ہوئی، قبائلی علاقہ تباہ ہوا، ملک کو 150ارب ڈالر سے زائد نقصان ہوا تاہم اس کی سب سے شرمناک بات یہ تھی کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ملک کسی کی حمایت میں جنگ لڑ رہا تھا اور وہ ملک اسی ملک پر بمباری کررہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں 400 سے زائد ڈرون حملے کیے گئے،
جنرل مشرف کے دور میں صرف 10 ڈرون حملے کیے گئے تاہم جو دو جمہوری لیڈرز آصف زرداری اور نواز شریف آئے تو ان کے 10سال میں 400ڈرون حملے کیے گئے۔وزیراعظم نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی ہوتی تو ان دونوں رہنماؤں کو امریکا کو کہنا چاہیے تھا کہ آپ کی بمباری سے ہمارے بچیں، عورتیں اور بے قصور لوگ مررہے ہیں، تو کیا اس وقت دو جمہوری رہنماؤں کو اس پر کوئی اسٹینڈ نہیں لینا چاہیے تھا،
اس پر ایک بیان تک نہیں دیا بلکہ امریکی صحافی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ آصف زرداری نے امریکی آرمی چیف سے کہا کہ ڈرون حملوں میں کولیٹرل نقصان سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔وزیر اعظم نے کہاکہ یہ اس لیے تھا کہ یہ ملک کی بہتری کے بجائے اپنے پیسے بچانے کے لیے کرتے ہیں اور آج جنگ کے آغاز کے بعد سے روس کے بڑے بڑے کاروباری افراد کے امریکا اور برطانیہ نے اپنے بینکوں میں موجود اثاثے منجمد کرنے شروع کردئیے ہیں،
اس لیے ہمارے ملک کی پالیسی آزاد ہو ہی نہیں سکتی۔انہوں نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس ملک میں آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں تو کبھی اس پارٹی کو ووٹ نہ دیں جس کے پیسے، دولت اور جائیداد پاکستان سے باہر پڑی ہے کیونکہ وہ کبھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنائیں گے۔عمران خان نے کہا کہ میں نے جتنے بھی دورے کیے جس میں دو چین کے اہم دورے تھے، اس میں ہمارے ملک کو بھی عزت ملی اور وقت ثابت کرے گا کہ ہم نے چین اور روس دونوں جگہ زبردست بات چیت کی۔
انہوں نے دورہ روس کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں روس اس لیے جانا تھا کیونکہ ہمیں 20لاکھ ٹن گندم روس سے امپورٹ کرنی ہے اور دوسری اہم چیز یہ ہے کہ روس دنیا کا وہ ملک ہے جس میں دنیا کی 30فیصد گیس ہے، تو پاکستان کی گیس میں کمی کے پیش نظر ہم نے ان سے گیس کے معاہدے کیے ہیں اور ہم ان سے گیس امپورٹ کریں گے جبکہ چین سے ہونے والے معاہدے خصوصاً سی پیک کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے بھی تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔
پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہاکہ اس کے حوالے سے شور مچا ہوا ہے کہ آزادی صحافت کے اوپر پابندی لگائی جا رہی ہے اور لوگوں کے منہ بند کیے جارہے ہیں تاہم میں سب کو بتادوں کہ پیکا قانون 2016 میں بنا تھا اور اس میں ہم صرف ترمیم کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آج پاکستان کے اخبار اور میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں 70فیصد خبریں ہمارے خلاف ہیں تاہم ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
البتہ یہ قانون ہم اس لیے لے کر آئے تاکہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر آنے والے گند کو روکا جا سکے کیونکہ دنیا میں کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح چیزیں نہیں آتیں جو ہمارے سوشل میڈیا پر آ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو نشانہ بنایا جا رہاہے جس سے لوگوں کے گھر اجڑ رہے ہیں کیونکہ فیک نیوز سے گند اچھالا جا رہا ہے، ابھی تک ایف آئی اے میں رجسٹر 94ہزار مقدمات میں سے صرف 38 کا فیصلہ ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ عام لوگوں کو تو چھوڑیں، وزیراعظم کو بھی نہیں بخشا جا رہا،
ایک صحافی نے تین سال پہلے لکھا کہ عمران خان کی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی اور عمران خان نے بنی گالا میں کوئی غیرقانونی کام کیا ہے، میں نے عدالت میں مقدمہ کیا لیکن تین سال گزرنے کے باوجود وزیراعظم کو انصاف نہیں مل رہا۔عمران خان نے کہا کہ وہی صحافی پھر لکھ رہا ہے کہ وزیراعظم کی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں، اگر ملک کے وزیراعظم کے ساتھ یہ ہو سکتا ہے تو سوچیں باقی لوگوں کا کیا ہو گا، اسی صحافی نے جب نواز شریف دور میں کرپشن پر لکھا تھا تو اسے تین دن بند کرکے ڈنڈے مارے گئے تھے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے وزیر کے خلاف ایک خاتون نے لکھا تو انہوں نے انگلینڈ میں جا کر انصاف لیا اور اب مراد سعید کے خلاف بات کی گئی ہے تو وہ بھی انگلینڈ میں جا کر مقدمہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شوکت خانم پر میڈیا ہاؤس جنگ گروپ نے لکھا کہ شوکت خانم کا پیسہ تحریک انصاف کو جا رہا ہے، اتنی بھی زحمت نہیں کی کہ کم از کم شوکت خانم سے پوچھ تو لیتے، حنیف عباسی نے بھی اسی طرح کا الزام لگایا تھا اور شوکت خانم ذیلی عدالتوں سے وہ مقدمہ جیت چکی ہے،
اب شوکت خانم انگلینڈ میں جنگ گروپ پر مقدمہ کرنے جا رہا ہے۔یہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا، آزادی صحافت کے نام پر مافیاز بیٹھ کر بلیک میلک کررہے ہیں، یہاں ایسے صحافی بیٹھے ہیں جو پیسے لے کر گند اچھال رہے ہیں اور بلیک میل کررہے ہیں، جس طرح کی غیرذمے دارانہ چیزیں یہاں آتی ہیں، کسی کی ہمت نہیں ہو سکتی کہ یہی جا کر آپ کسی اور جمہوریت میں کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ میں نے الیکشن جیتنے پر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو نامزد کیا تو تین مرکزی اخباروں کے صفحہ اول پر آتا ہے کہ
جادو ٹونے سے ستارے دیکھ کر آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو منتخب کیا گیا، یہی چیز کہیں بھی انگلینڈ یا مغرب کے اخباروں میں کی جاتی تو ان پر اتنا بڑا ہرجانہ ہونا تھا کہ ان کے اخبار ہی بند ہو جاتے۔وزیراعظم نے خطاب کے دوران 2018 میں حکومت میں آنے کے بعد درپیش معاشی صورتحال، گردشی قرضوں کا بھی تفصیلی ذکر کیا اور کورونا کے دوران حکومت کی جانب سے عوام کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کا بھی احاطہ کیا۔انہوں
نے کورونا کی وجہ سے دنیا بھر مین بڑھتی ہوئی مہنگائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 40سال میں سب سے زیادہ مہنگائی دنیا کی تگڑی ترین معیشت امریکا میں ہوئی، وہاں 1.5فیصد سے زیادہ اشیا مہنگی نہیں ہوتیں لیکن وہاں مہنگائی 7.5فیصد تک پہنچ گئی۔انہوںنے کہاکہ کینیڈا میں 30سال کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی آئی، برطانیہ میں 1992 کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی آئی جبکہ ترکی میں بھی 20سال بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی۔اس موقع پر انہوں نے
مہنگائی کے حوالے سے سابقہ حکومتوں کے دور کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں 13.9فیصد مہنگائی ہوئی ہے، دو سال تک چلنے والی حکومت کے دوسرے دور میں 8.34فیصد مہنگائی ہوئی، تیسرے دور میں 11.6فیصد اور چوتھے دور میں 13.6 فیصد مہنگائی ہوئی۔عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ کے پہلے دور میں 10.08فیصد مہنگائی ہوئی، دوسرے دور میں 7.2فیصد اور تیسرے دور میں 5فیصد مہنگائی
تھی حالانکہ ان کے تیسرے دور میں تیل کی قیمتیں سب سے کم تھیں جبکہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں 8.3فیصد مہنگائی ہوئی۔وزیر اعظم عمران خان نے کہاکہ مجھے خوف ہے یوکرائن اور روس کی جنگ کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے نہیں ہونگی ، تیس فیصد دنیا گیس بھی وہاں سے آتی ہے اور اس کی قیمت بھی اوپر چلی جائیگی ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے روس سے بیس لاکھ گندم کا بھی کہا ہوا ہے اور گندم بھی اوپر چلی گئی ہے
۔انہوں نے کہاکہ اس وقت سب سے بڑ امسئلہ پٹرول اور ڈیزل کا ہے ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اوپر چلی گئیں تو لوگوں پر مزید بوجھ پڑ جائیگا۔ انہوںنے کہاکہ جب اپوزیشن والے کہتے ہیں پٹرول اور ڈیزل بڑا مہنگا ہوگیا ہے تو وہ بتائیں ان کے پاس کیا حل ہے ؟اگر کوئی حل ہے تو ہمیں بتادیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان میں آج بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں دوسرے ممالک سے کم ہیں ۔انہوںنے کہاکہ اس وقت بھی پاکستان دنیا کے 190ممالک میں سے
25ویں نمبر پر ہے جدھر ابھی بھی ہمارا پٹرول اور ڈیزل سب سے کم بک رہاہے ۔انہوںنے کہاکہ پٹرول ہمارے پاکستان میں 160روپے ، ہندوستان میں 260روپے ، بنگلہ دیش میں 185روپے اور ترکی میں 200روپے لیٹر فروخت ہورہا ہے ۔انہوںنے کہاکہ ہم ستر ارب روپے کی ہر ماہ سبسڈی دیتے ہیں اگر ہم نہ کریں تو آج پٹرول 220روپے فی لیٹرفروخت ہو ۔ انہوںنے کہاکہ اوگرا نے سمری میں دس روپے فی لیٹرپٹرول اور ڈیزل بڑھانے کی تجویز دی ہے ،
ہم بجائے دس روپے پٹرول اور ڈیزل فی لیٹر بڑھانے کے ہم دس ،دس روپے فی لیٹر کم کررہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان میں پچاس سالوں میں کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا ، ہم دس ڈیم بنا رہے ہیں جو اگلے پانچ سے دس سالوں میں بن جائینگے،اگر پہلے ڈیم بنا لیتے تو پاکستان میں بجلی بہت سستی ہوتی ۔ انہوںنے کہاکہ اگر یہ ڈیم بن گئے تو دنیا میں قیمتیں بڑھائی بھی گئیں تو ہم بچ جائینگے ۔انہوں نے کہاکہ پانچ روپے فی یونٹ بجلی کم کررہے ہیں ،پانچ روپے فی یونٹ بجلی کم کر نے کا مطلب ہے کہ
بیس فیصد سے پچاس فیصد بجلی کے بل کم ہونگے اس کیلئے بڑی محنت سے کہیں اور سے سبسڈی نکالی ہے ۔انہوںنے کہاکہ اگلے بجٹ تک پٹرول اور بجلی میں کوئی اضافہ نہیں کرینگے ۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بی اے پاس نوجوانوں کو 30 ہزار روپے کی انٹرن شپ دلوائیں گے، 80 لاکھ خاندانوں کو اب 12 ہزار کے بجائے 14 ہزار روپے ملا کریں گے، آئی ٹی سیکٹر میں کمپنی اور فری لانسرز کو 100 فیصد ٹیکس چھوٹ دی ہے، اسٹارٹ اَپس کو 100 فیصد کیپٹل گین ٹیکس سے چھوٹ دے دی ہے،
جو انڈسٹری لگائے گا اس سیکوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اوور سیز پاکستانی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں گے تو 5 سال ٹیکس چھوٹ دیں گے، کسانوں کو سود کے بغیر قرض دیں گے، غریب گھرانوں کو سستا گھر قرضہ دیں گے، بڑی مشکل سے بینکوں کو غریب لوگوں کو قرضہ دینے کیلئے راضی کیا ہے، مزدور، ویلڈرز کیلئے گھر کے قرضہ کیلئے آسانی پیداکی، بینکوں نے150ارب روپے کے قرضوں کی منظوری دے دی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ صحت کارڈ غریب گھرانے کیلئے سب سے بڑی نعمت ہے، مارچ تک ہر گھرانے کے پاس صحت کارڈ ہوگا، انشاء اللہ یہ پورا ہیلتھ سسٹم بن رہا ہے، ہمارا ملک اور ہماری معیشت صحیح راستے پر چل پڑی ہے۔