پیر‬‮ ، 14 جولائی‬‮ 2025 

ہائیکورٹ کا محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارنے سے متعلق کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس

datetime 21  فروری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سینئر صحافی محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارنے سے متعلق کیس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا جبکہ عدالت عالیہ نے سینئرصحافی محسن جمیل بیگ کے گھر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کے چھاپے کے خلاف درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی،آپ کے قانون میں ہے کہ آپ نے پہلے انکوائری کرنی ہے،

آپ نے کوئی انکوائری نہیں کی ،ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کیلئے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے جس پر تشویش ہے،کیا میسج دیا جا رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی نہیں؟عدالت اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔پیر کو اسلام آباد ہائی کور ٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سینئر صحافی محسن بیگ کے گھر پر ایف آئی اے کے چھاپے سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ دور ان سماعت سماعت میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے پوچھا آپ نے اس کورٹ اور سپریم کورٹ کو انڈرٹیکنگ دی تھی، کیا ایس او پیزبنائے؟ آپ کو کہا تھا کہ ہتک عزت کے معاملے کو آپ نے فوجداری قانون میں رکھا ہوا ہے، ایف آئی اے کو روگ ایجنسی نہیں بننے دیں گے، آپ کاکام لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہر کیس میں ایف آئی اے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے، چیف جسٹس نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سے استفسار کیا کہ آپ کو کمپلینٹ کہاں ملی تھی؟۔ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ وزیرمراد سعید نے15 فروری کو لاہورمیں شکایت درج کرائی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا مراد سعید وہاں وزٹ پر گئے ہوئے تھے؟ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ پڑھ کر بتائیں کس جملے سے ہتک عزت کا پہلو نکلتا ہے؟ اس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کاجملہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس جملے میں کتاب کا حوالہ ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کیا کتاب کا صفحہ نمبر محسن بیگ نے پروگرام میں بتایا ہے؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ نہیں، یہ بات پروگرام میں نہیں کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو توہین عدالت کا شوکاز جاری کر رہے ہیں۔ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ ہم بھی آپ کے بچے ہیں، ایف آئی اے اہلکار کو مارا پیٹا گیا، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جواب دیا کہ نہ آپ میرے بچے ہیں،نہ میں آپ کا باپ ہوں، آپ نے شکایت ملنے پر محسن بیگ کو کوئی نوٹس جاری کیا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا محسن بیگ کو نوٹس جاری نہیں کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے قانون میں ہے کہ آپ نے پہلے انکوائری کرنی ہے، آپ نے کوئی انکوائری نہیں کی کیونکہ شکایت وزیرکی تھی، یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی، ٹاک شو ٹیلی وژن پر ہوا تو پھر متعلقہ سیکشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ جب وہ ٹاک شو فیس بک، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو ہم نے کارروائی کی،

چیف جسٹس نے سوال کیا آپ نے کیا انکوائری کی؟ کیا ملزم نے وہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا؟، اس پروگرام میں کتنے لوگ تھے؟ کیا سب نے وہی بات کی تو باقی تینوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ڈائریکٹر سائبر کرائم نے کہا کہ باقی لوگوں نے وہ بات نہیں کی جو محسن بیگ نے کی،

چیف جسٹس نے کہا کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟کیا آپ نے وہ کلپ دیکھا ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ کتاب میں کیا لکھا ہے وہ سب جانتے ہیں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سب کیا جانتے ہیں؟آپ جانتے ہوں گے،یہ عدالت بار بار کہتی رہی ہے کہ آپ محتاط رہیں، مگر کیا میسج دیا جا رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی نہیں؟عدالت اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔عدالت نے کہاکہ ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کیلئے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے جس پر تشویش ہے، افریقہ کے

ممالک نے بھی ہتک عزت کے معاملات کو فوجداری قوانین سے نکالا ہے،صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ممالک میں پاکستان کا 8 واں نمبر ہے،یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟یہ ایف آئی اے کیاختیارات کے غلط استعمال کی کلاسک مثال ہے،آپ بتائیں کوئی کتاب کا حوالہ دے تو اس میں فحش بات کیا ہے؟ اگر کتاب میں کوئی بات موجود ہے جس کا کوئی حوالہ دے تو آپ کارروائی کریں گے؟

کیا اس کتاب میں یہ واحد صفحہ ہے جس پر شکایت کنندہ کا ذکر ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے ریحام خان کی کتاب نہیں پڑھی،چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ مفروضے پر بات کر رہے ہیں،کسی کی ساکھ اختیارات کے غلط استعمال سے نہیں بچتی،پبلک آفس ہولڈرز پر لوگوں کا اعتماد ہی ان کی اصل ساکھ ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہاکہ ملزم نے چھاپے کے وقت جو کیا وہ الگ معاملہ ہے جو مجاز عدالت دیکھے گی،عدالت نے کہاکہ کھوسہ صاحب آپ کی مقدمہ اخراج کی درخواست قابل سماعت نہیں۔لطیف کھوسہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ ایک جتھا آکر گھرمیں گھسا، ہم نے کال کرکے پولیس کو بلایا، ایس ایس پی کو ایک فون آیا تو یہ سب کو تھانے لے آئے،پولیس اسٹیشن میں محسن بیگ کو مارا پیٹا گیا،عدالتی بیلف گیا تو اسے بھی بڑی مشکل سے پولیس اسٹیشن میں داخلے کی اجازت ملی،ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں سماعت چلی

اورانہوں نے اس سے متعلق فیصلہ دیا۔وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اس دوران محسن بیگ کو انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ لے لیا، میں صرف بدنیتی کے نکتے پر دلائل دے رہا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ ہوا عدالت اس پر کوئی آبزرویشن نہیں دے گی،ٹرائل کورٹ کو بتائیں،لطیف کھوسہ نے کہاکہ مراد سعید لاہورگیا بھی نہیں، پھر پتہ نہیں لاہور میں کیسے شکایت درج ہوگئی؟

وفاقی وزیرکی شکایت پر یہ کارروائی ہوئی تو وزیراعظم نے میٹنگ بلائی۔ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے خود کہا کہ جج کے خلاف ریفرنس لا رہے ہیں، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کسی جج کو دھمکایا نہیں جاسکتا، اس پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آبادنے کہاکہ اگر آپ کہیں تو میں اس بات کا جواب دوں۔لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ بولے آپ اتنی جلدی گھبرائیں نہیں، چیف جسٹس نے

کہاکہ ایف آئی اے نے ایسا کیس بنایا کہ پورا قانون ہی کالعدم قرار ہو جائے، ایف آئی اے سارا کام چھوڑ کر عوامی نمائندوں کی عزتیں بچانے میں لگی ہوئی ہے۔لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ انکوائری رپورٹ میں لکھا ہے تھانے میں تشدد کا آزاد گواہ نہیں،اب میں تھانے میں تشدد پر گواہ کہاں سے دے سکتا ہوں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے؟ کہ رپورٹ میں یہ لکھا ہے؟ لطیف کھوسہ بولے جی،

میں رپورٹ پڑھ دیتا ہوں، اس میں ایسا ہی لکھا ہے،اس کے بعد لطیف کھوسہ نے آئی جی اسلام آباد اور مجسٹریٹ کی انکوائری رپورٹ پڑھ کر سنا دی۔لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ایک رپورٹ میں لکھا کہ کچھ زخم آئے ہیں، جس چھاپے کو ایڈیشنل سیشن جج نے غیر قانونی قرار دیا، اس وقت تک کوئی مزید ایف آئی آر درج نہیں تھی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی آر درج ہوئی جس پرملزم کے خلاف کچھ

الزامات ہیں،غیر قانونی چھاپہ نہ مارا جاتا تو اس کے بعد والا واقعہ ہونا ہی نہیں تھا،لطیف کھوسہ نے عدالت میں سوال کیا کہ گھر میں کوئی سادہ کپڑوں میں گھس آتا ہے تو کیا شہری کو اپنے دفاع کا حق نہیں؟چیف جسٹس نے جواب میں کہاکہ اگر کوئی میرے گھر آکر تعارف کرائے کہ ایف آئی اے سے ہوں، ساتھ چلیں، تو میں ساتھ جائوں گا۔عدالت نے سینئر صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے چھاپے کیخلاف

درخواست پر سماعت جمعرات 24 فروری تک ملتوی کردی اور ایف آئی اے کے دفاع کیلئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا۔عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل مطمئن کریں اس جرم سے متعلق دفعہ کو کیوں نہ ختم ہی کردیا جائے؟عدالت نے ساتھ ہی ایف آئی اے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کو شوکاز جاری کردیا کہا کہ بیان حلفی جمع کرائیں کہ ان کیخلاف اختیارات کے غلط استعمال پر کیوں کارروائی نہ کی جائے؟

سماعت میں وقفے سے قبل ہائی کورٹ نے لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست پر احکامات جاری کرتے ہوئے ڈائریکٹرایف آئی اے سائبر کرائم کو دن 11 بجے طلب کیا۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کیس میں ریمارکس دیئے کہ ریاست کی رٹ ہونی چاہیے، بیشک کوئی انکے گھر غلط گیا ہوگا مگر قانون ہاتھ میں کیوں لیا؟ اس سے متعلق جو بھی دفاع ہے وہ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں،

محسن بیگ پر تھانے میں تشدد کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللّٰہ نیازی نے رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں محسن بیگ کی گرفتاری ، تھانے میں آمد، روانگی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ موقع پر جھگڑا ہوا جس پر محسن بیگ نے ایف آئی اے کے دو اہلکاروں کو مارا، حوالات لے جاتے ہوئے بھی محسن بیگ نے شدید مزاحمت کی،

تھانے میں آنے کے بعد پھر جھگڑا ہوا۔سردار لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ محسن بیگ کے خلاف 4 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں، کراچی، لاہور، اسلام آباد میں دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔سماعت کے دوران ایف آئی اے کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا تو مقدمہ لاہور میں کیوں درج ہوا؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرکی ساکھ کی حفاظت کیلئے کام کر رہا ہے؟، ایف آئی اے کا کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے نہ قانون کو؟ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے، کیوں نہ ایف آئی اے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں؟۔سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست پر احکامات جاری کرتے ہوئے ڈائریکٹرایف آئی اے سائبر کرائم کودن 11 بجے طلب کیا اور سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی تھی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کاش کوئی بتا دے


مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…