اسلام آباد (مانیٹرنگ، آن لائن) جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اثاثے چھپانے کا مطلب یہ ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے، قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثے جاننا عوام کا حق ہے، ان کا کہنا تھا کہ ججز مریخ سے نہیں اترے، وہ بھی ہم میں سے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کو چاہیے تھاکہ اپنی صوابدید پر ہی اپنی بیوی کے اثاثے ظاہر کر دیتے،
یہ بات ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں شامل ہونی چاہیے، ان کی اہلیہ کے پاس اثاثے ہیں تو ان کا سورس ظاہر ہونا چاہیے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تحریری فیصلے سے متعلق وزیر قانون فروغ نسیم کے بیان پر ماہرین قانون بھی میدان میں آگئے، دوٹوک موقف دیدیاہے۔ماہر قانون رشید اے رضوی اور جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تحریری فیصلے سے متعلق وزیر قانون فروغ نسیم کے بیان کو مسترد کر دیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ماہر قانون دان رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہیں تاثر نہیں دیا گیا کہ ججز اور ان کے اہلخانہ کا احتساب نہیں ہوسکتا، فروغ نسیم عوام کو کنفیوز کر رہے ہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی کا اضافی نوٹ فیصلے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ادھر جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ججز کے احتساب کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ ہے اور پھر جوڈیشل کونسل بھی موجود ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں سے متعلق نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا تاہم میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے وقافی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف نہیں لیکن وہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کو تضاد کا حامل بھی قرار دیا تھا۔