واشنگٹن(این این آئی)امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان سے اپنی افواج اس لیے واپس بلا لیں کیونکہ جنگ زدہ ملک کو ایک حکومت کے تحت متحد کرنا ممکن نہیں ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق وائٹ ہائوس کی ایک نیوز کانفرنس میں جوبائیڈن نے یہ بھی کہا کہ امریکا 20 برسوں سے افغانستان میں ہر ہفتے ایک ارب ڈالر خرچ کر رہا تھا اور غیر معینہ مدت تک ایسا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بھی افغانستان کو ایک ہی حکومت کے تحت متحد کرنے کے قابل ہے تو اپنا ہاتھ اٹھائیں، یہ ایک ٹھوس وجہ سے سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے کیوں کہ یہ اتحاد کے لیے موثر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے گزشتہ سال جنوری میں حکومت سنبھالی تو انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا ریاست افغانستان میں ہر ہفتے اتنی رقم خرچ کرتے رہنا ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ یہ خیال مزید تابوت گھر بھیجنے کے علاوہ، کامیاب ہونا انتہائی غیر معمولی ہے اس لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔تاہم امریکی انخلا کے بعد سے کیے گئے رائے عامہ کے سروے بتاتے ہیں کہ زیادہ تر امریکی اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔جو بائیڈن نے کہا کہ یہاں تک کہ امریکی فوج بھی اس بات کو تسلیم کرے گی کہ اگر ہم ٹھہرے رہتے، تو ہمیں 20 سے 50 ہزار کے درمیان مزید فوجیوں کو واپس بھیجنے کو کہا جاتا۔دوسری جانب ترجمان افغان وزارت خارجہ عبدالقھار بلخی نے امریکی صدر بائیڈن کے اس بیان کو مسترد کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان متحد ہونیکی صلاحیت نہیں رکھتا۔میڈیارپورٹس کے مطابق افغان وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہناتھا کہ اختلاف رائے غیر ملکی حملہ آوروں نے اپنی بقا کیلئے پیدا کیا، متحد قومیں ہی حملہ آوروں، عظیم سلطنتوں کے زوال کا سبب بنتی ہیں۔عبدالقھار بلخی کا کہنا تھا کہ افغان عوام نے مشترکہ اسلامی عقائد، حب الوطنی کیساتھ غیرملکی حملہ آوروں کوشکست دی، امارت اسلامی نے مختصر مدت میں محدود وسائل کیساتھ مجموعی سلامتی کو یقینی بنایا، مرکزی حکومت قائم کی اور افغان قوم کو متحد کیا۔