پیر‬‮ ، 25 اگست‬‮ 2025 

سرکاری ملازمت کیلئے کوئی تو میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہیے،سپریم کورٹ

datetime 13  دسمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں برطرف ملازمین کیس جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمت کیلئے کوئی تو میرٹ اور طریقہ کار ہونا چاہیے،عدالت نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے،عدالتی فیصلے مستقل کیلئے بطور نظیر پیش ہوتے ہیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ دس سال سروس پر ملازمین کو کوئی ریلیف دینا چاہیے

تو دے سکتی ہے جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا ہے کہ پارلیمان حکومت اور میرے ذریعے ایکٹ کا دفاع کر رہی ہے ،۔سپریم کورٹ میں سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کالعدم قرار دینے سے متعلق نظر ثانی درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا 7 نومبر 1996 کے خط کے تحت ان ملازمین کو نکالا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کتنے اداروں کے ملازمین سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثرہ ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ 16 اداروں کے 16 ہزار ملازمین بتائے جا رہے ہیں ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا کہ 5 ہزار متاثرہ ملازمین ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا قانون کے مطابق ان ملازمین کی پنشن کا حق بنتا ہے؟ اٹارنی جنرل بولے میرے خیال سے قانون کے مطابق ان ملازمین کے پنشن کا حق ابھی نہیں بنے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو مکمل انصاف کا اختیار دیتا ہے،عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی بھرتی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا ہے، سرکاری عہدوں پر بھرتی کیلئے معیار تو ہونا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ غیرآئینی قانون سازی میں ملازمین کا کوئی کردار نہیں تھا،بحالی کا قانون دوبارہ نہیں بن سکتا کیونکہ عدالتی فیصلہ آچکا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کیا آئین سے بڑھ کر کوئی گورننس سسٹم ہو سکتا ہے؟ حکومت نے پہلے ملازمین کی بحالی کی مخالفت کی اور اب نظرثانی میں بحال کرنا چاہ رہی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب عدالت سنگدل نہیں ہوتی معلوم ہے کسی گھر کا چولہا بند ہوجائے تو وہاں کیا حالت ہوگی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیئرمین نیب کے کام جاری رکھنے پر بھی آرڈیننس آیا ہے،نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین کو ہمیشہ کیلئے عہدے پر رکھنا آئین اور پارلیمان کی توہین ہوگی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کالعدم قرار دیا گیا قانون بحال نہیں ہوگا حکومت تعین کرے کیا ریلیف مل سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ملازمین کی بحالی سے 15 ہزار نوکریاں تو ویسے ہی ختم ہوگئیں جن نوجوانوں کا حق مارا گیا ان کا کیا کرینگے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہزاروں ملازمین غیر حاضری، کرپشن اور مس کنڈکٹ پر نکالے گئے وہ کیسے بحال ہوسکتے ہیں،عدالت نے مزید سماعت (آج) منگل تک ملتوی کردی

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سپنچ پارکس


کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…