ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

دنیا میں اسلاموفوبیا ہمارا قصور نہیں، کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا تو 9/11 کے بعد مسلمان اور دہشت گردی کس طرح ایک ہوگئے،وزیراعظم عمران خان

datetime 13  دسمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کہ وہ ملک جس کو افغانستان کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا سب سے زیادہ کولیٹرل ڈیمج پہنچا اسی پر سارا نزلہ گر گیا کہ امریکا پاکستان کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوا،امریکا کے اتحادی ممالک میں کسی ملک نے اتنی بڑی قربانی نہیں دی، کہیں ہماری طرح 80 ہزار جانوں کا نقصان نہیں ہوا،

کہیں 30 سے 40 لاکھ افراد اندرونِ ملک ہی دربدر نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی کی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا اتنا بھاری نقصان پہنچا،دنیا میں اسلاموفوبیا ہمارا قصور نہیں، مسلمان ممالک میں ایسے تھنک ٹینکس کہاں ہیں جو جواب دیتے کہ اسلام اور دہشت گرد کا کیا تعلق ہے، کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا تو 9/11کے بعد مسلمان اور دہشت گردی کس طرح ایک ہوگئے،بھارت جو کچھ کررہا ہے اس کے باوجود کوئی مغربی ملک اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا، قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انتخابات کے نتیجے میں وہی وار لارڈز،جرائم پیشہ ور اور طاقتور افراد اوپر آجائیں گے۔مارگلہ ڈائیلاگ 21 کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا کے اتحادی ممالک میں کسی ملک نے اتنی بڑی قربانی نہیں دی، کہیں ہماری طرح 80 ہزار جانوں کا نقصان نہیں ہوا، کہیں 30 سے 40 لاکھ افراد اندرونِ ملک ہی دربدر نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی کی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا اتنا بھاری نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود گزشتہ 10 سے 12 سال کے مغربی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، کسی نے پاکستان کو کریڈٹ نہیں دیا بلکہ بدنامی ہوئی کہ ڈبل گیم کھیلا جارہا ہے جبکہ غلطیاں وہ کررہے تھے اور قربانی کا بکرا پاکستان بن رہا تھا۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان اس سب کا مؤثر جواب نہیں دے سکا کیوں کہ کوئی ایسا تھنک ٹینک نہیں تھا جو قیادت کو آگاہی دیتا،

پاکستان اس جنگ کا شکار بنا گیا تھا، وہ توقع کررہے تھے کہ پاکستان انہیں جنگ جتائے گا جبکہ پاکستان میں جو تباہی مچی وہ خود اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔وزیراعظم نے کہا کہ وہ ہمارا تاریک دور تھا اور باعث تضحیک تھا کہ ہم ساتھ بھی دے رہے تھے، اپنے آپ کو اتحادی بھی کہہ رہے تھے اور وہ اتحادی ہم پر ہی بم برسا

رہا تھا جس سے ہمارے لوگ مرے اور الزام بھی ہم پر لگائے گئے، کہتے تھے ہم آپ کو امداد دے رہے ہیں جبکہ معاشی نقصان کے مقابلے وہ امداد بہت معمولی تھی۔انہوں نے کہا کہ ایک بہت خلا یہ تھا جو دانشور قیادت اس معاملے کو اوپر لے کر آتی وہ بھی یہاں نہیں تھی، ملک بھی بیانیوں میں تقسیم ہوگیا، ایک امریکا کا حامی دوسرا

مخالف تھا کیوں کہ ہم اپنا نقطہ نظر دنیا میں بیان ہی نہیں کرسکے۔وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں اسلاموفوبیا ہمارا قصور نہیں، مسلمان ممالک میں ایسے تھنک ٹینکس کہاں ہیں جو جواب دیتے کہ اسلام اور دہشت گرد کا کیا تعلق ہے، کوئی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا تو 9/11کے بعد مسلمان اور دہشت گردی کس طرح ایک ہوگئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت جو کچھ کررہا ہے اس کے باوجود کوئی مغربی ملک اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا، جو کچھ کشمیر میں کررہا ہے اگر کوئی اور ملک یہ کررہا ہوتا تو کتنا شور اٹھتا۔انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان ممالک میں تھنک ٹینکس ہوتے تو اس معاملے کو اٹھاتے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ بھارت کی متعصب، فاشسٹ حکومت

کی اقلیتوں سے متعلق پالسیز اور کشمیر میں کیے جانے والے اقدامات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے مسلم دنیا میں تھنک ٹینکس نہیں۔ انہوںنے کہاکہ اسلام ایک ہی ہے، انسانوں میں بنیاد پرست، اعتدال پسند اور لبرلز ہوتے ہیں لیکن دین کا اس سے کوئی واسطہ نہیں، نبیؐ کا دین صرف ایک ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس دوران مغربی

ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن مسلم دنیا کی قیادت کی جانب سے کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔انہوں نے کہا کہ جب سے سلمان رشدی کی کتاب آئی تھی اس کے بعد سے خاص طور پر یہ دیکھا گیا کہ مغرب کے لوگ، تھنک ٹینکس اور میڈیا ہمارے انتہا پسندوں پر توجہ مرکوز کرکے پورے معاشرے کو اسی

طرح تعبیر کرتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ حالانکہ میں پوری دنیا میں گیا ہوں اور اس معاشرے میں سب سے زیادہ سخی، مہمان نواز لوگ دیکھے، ہمارے دین کا عام لوگوں پر اثر بہت مثبت ہے، ہمارا خاندانی نظام مضبوط ہے، مہذب معاشرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشکلات نہیں ہیں، ہمارے بھی ایکسٹریم ہیں، جس کی بہت

بڑی وجہ غیر منصفانہ تعلیمی نظام کو ٹھیک نہ کرنا ہے جو 3 طرح کے متوازی نظام پیدا کررہا ہے جو آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جو ملک 1990 تک معاشی اشاریوں میں سب سے آگے تھا اور پھر اسے ہم نے پیچھے جاتے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ قانون کی حکمرانی ہے، غریب اقوامِ کے ترقی نہ کرنے کی وجہ وسائل کی کمی نہیں

بلکہ قانون کی حکمرانی وہ اہم ترین چیز ہے جس سے معاشرے میں تہذیب آتی ہے، میرٹ کا خیال رکھا جاتا ہے اور جمہوریت بھی اسی ملک میں پروازن چڑھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انتخابات کے نتیجے میں وہی وار لارڈز،جرائم پیشہ ور اور طاقتور افراد اوپر آجائیں گے، قانون کی حکمرانی انہیں روکتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کرپشن بھی قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی علامت ہے اور پوری ترقی پذیر دنیا اشرافیہ کی کرپشن کی وجہ سے پیچھے ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…