28 جون 2018 کو جرنیل ملے، 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا،ایک ماہ تک جج نے انتظار کیوں کیا؟جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس پر سپریم کورٹ کے ریمارکس

6  دسمبر‬‮  2021

اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف اپیل پر سماعت،عدالت عظمیٰ نے معاملہ ایک دن کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔دوران سماعت جسٹس سردار طارق مسعود نے وکیل حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ

کیا یہ آپ کی طرف سے تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ آپ سے آرمی جنرلز ملے؟جب جرنیل آپ سے ملے تو آپ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا،ایک اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو عدالت کا نوٹس بنتا تھا،آپ نے چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی،یہ بتا دیں کیا یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا، 28 جون 2018 کو جرنیل آپ سے ملے آپ نے 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا،ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا؟وکیل شوکت صدیقی حامد خان نے دلائل دئیے کہ مجھے بس اس لیے نکالا نہیں جا سکتا کہ میں نے جرنیل کو نوٹس نہیں کیا،میں نے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا،اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت نوٹس دینا چاہیے تھا کہ ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔شوکت عزیز صدیقی نے اس موقع پر روسٹرم پر آ کر بتایا کہ عدالت اس وقت کی صورتحال دیکھے کہ اداروں کے سربراہان میری گردن کے پیچھے تھے،میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا تو کیا ہوتا،اس وقت کے ادارے کے سربراہ ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے،اس کے بعد آپ مجھے پھانسی دیں گے تو دے دیں،23 سال بطور وکیل، 7 سال بطور جج اور 3 سال بطور سائل ہو گئے ہیں،میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر شوکت عزیز صدیقی پر برہمی اظہار کا اظہار کرتے ہوئے ان کے وکیل سے کہا

حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیار کی ہے،جب آپ کے موکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے،جس طرح آپ کے موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سے غیر اخلاقی ہے،آپ نے شوکت عزیز صدیقی کی خاموش رہ کر حوصلہ افزائی کی،اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ معذرت کرتا ہوں بعض اوقات جزبات اکثر آڑے

آجاتے ہیں،شوکت صدیقی آئی ایس آئی کو تنگ کرتے تھے اس لیے ٹارگٹ کیا گیا،ادارے سمجھتے تھے کہ شوکت صدیقی آزاد جج ہیں،فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی جوڈیشل کونسل نے شوکاز بھیجا،شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس دیے،ججز سماعت کے دوران آبزرویشن دیتے رہتے ہیں، جس پر

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ جذبات کی یہاں کوئی جگہ نہیں، ہمیں یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا،آپ اپنے موکل کو اجازت دیتے رہے کہ وہ عدالت کی تضحیک کرتے رہیں،آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ شوکت عزیز صدیقی پر اس وقت نفسیاتی دباو تھا،ججز کے بارے میں منفرد بات یہ ہے جج کے دل کے اندر آگ بھی لگی ہو تو وہ

خود کو پرسکون رکھتے ہیں،ججز پر بہت سے الزامات لگتے رہتے ہیں جج اپنے فیصلے سے بولتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے تقریر میں سب باتیں غلط کی ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ کہا کہ تقریر کرنا غلط تھا،شوکت عزیز صدیقی کا موقف ہے کہ بطور جج آپ کا

حق ہے جو مرضی کہیں،آپ کا موقف یہ ہے کہ ایک جج کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہو تو وہ اپنے اعتماد کے وکلاء کے پاس جا سکتا ہے،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ایک موقع پر وکیل حامد خان کو تجویز کیا کہ آپ اپنے موکل کو سمجھائیں کہ جب ان کے وکیل موجود ہیں تو وہ بات نا کریں،صرف شوکت عزیز صدیقی کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا گیا؟

آئی ایس آئی کو تنگ کرنے پر جوڈیشل کونسل کیوں کارروائی کرے گی؟جسٹس سردار طارق نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس بار کونسل میں تقریر سے پہلے ہوا تھا،برطرفی تقریر پر ہوئی دونوں کا آپس میں تعلق نہیں بنتا، جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ریمارکس دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ جج آزاد تھے یا پہلے سے ذہن بنایا ہوا تھا، تقریر اور ریمارکس تسلیم شدہ ہیں جن پر کونسل نے فیصلہ کیا۔بعد ازاں کیس کی سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…