سرینگر (آن لائن)مقبوضہ کشمیر میں سینئیر حریت رہنما سید علی گیلانی کے جنازے کے حوالے سے تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سید علی گیلانی کے بیٹے ڈاکٹر نعیم نے بتایا ہے ہے کہ ’ہمیں اپنے والد کی آخری رسومات کو اسلامی طریقے سے ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ ہمارا حق تھا لیکن وہ ہم سے چھین لیا گیا۔ ہم اس کی وجہ سے بہت افسردہ ہیں۔‘
ڈاکٹر نعیم اور ان کے بھائی ڈاکٹر نسیم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے۔دونوں بھائیوں کا الزام ہے کہ جب سید علی گیلانی کی گذشتہ بدھ کو موت واقع ہوئی تو پولیس اور حکومتی اہلکار زبردستی ان کے والد کی لاش کو لے کر چلے گئے۔دونوں بھائیوں کے مطابق وہ انھیں ’آخری غسل بھی نہیں دے سکے، نہ ہی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور نہ ہی ہم انھیں قبر میں اپنے ہاتھوں سے اتار سکے۔‘ڈاکٹر نسیم کہتے ہیں کہ سید علی گیلانی کا آکسیجن لیول ان کی موت سے کچھ منٹ پہلے تک بالکل نارمل تھا۔ اسی وقت ان کے طبی معالج عمر کو بلایا گیا جو طویل عرصے سے ان کا علاج کر رہے تھے۔ انکا کہنا ہے عمر کو سمجھ آ گئی تھی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور پھر سکمز ہسپتال کے ڈائریکٹر کو بلایا گیا جنھوں نے بتایا کہ گیلانی وفات پا چکے ہیں۔اسی وقت پولیس اور پیراملٹری فورسز نے ان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ دو سینئیر پولیس افسران نے خاندان کے ساتھ ان کے جنازے کے حوالے سے بات کی۔ ڈاکٹر نسیم کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں بتایا کہ نماز جنازہ صبح ادا کی جائے گی تاکہ تمام رشتہ دار آ کر ان کا چہرہ دیکھ سکیں۔ انہوں نے بتایا ’ہمارے گھر میں موجود خواتین نے پولیس سے کہا کہ وہ سید علی گیلانی کے جسم کو نہ چھوئیں۔ لیکن پھر رات تین بجے وہ دوبارہ آئے اور پھر جب ہم نے رات کو ان کی آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کیا
تو انھوں نے زبردستی ان کی لاشں لے لی اور خاندان کے افراد کے بغیر آخری رسومات ادا کر دیں۔‘تاہم دوسری جانب پولیس ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ سید علی گیلانی کا جسد خاکی چھینا نہیں گیا تھا بلکہ پولیس نے قبرستان تک پہنچنے میں خاندان کی مدد کی تھی جو کہ گھر سے 300 میٹر دور
واقع ہے۔کشمیر رینج کے آئی جی ویجے کمار کا کہنا ہے کہ پولیس نے کورونا وائرس کے پروٹوکول کے تحت آخری رسومات ادا کیں۔ امن و امان کو لاحق خطرات کے پیش نظر آخری رسومات جلد ادا کی گئیں۔‘ جموں اور کشمیر پولیس نے دو ستمبر کو کہا کہ بڈگام میں ایک ایف آئی آر کاٹی گئی ہے جو کہ شر پسند عناصر کے خلاف
ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر ان لوگوں کے خلاف ہے جنھوں نے انڈیا مخالف نعرے لگائے اور دیگر ملک دشمن سرگرمیاں کیں۔پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ علیحدگی پسند رہنما کا جسم پاکستانی جھنڈے میں لپٹا ہوا تھا۔اس کیس میں کسی کا نام شامل نہیں اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا ہے۔یہ واضح نہیں کہ کیسے نامعلوم افراد نے ملک کیخلاف نعرے بازی کی اور جب آخری رسومات پولیس کی نگرانی میں ادا کی گئیں تو کیسے سید علی گیلانی کے
جسم کو پاکستانی جھنڈے میں لپیٹا گیا۔ ڈاکٹر نسیم کا کہنا ہے کہ پولیس افسران ان کے والد کے کمرے میں گئے جہاں ان کا جسد خاکی تھا۔’پولیس چیف وجے کمار نے ہمارے گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر میرے بھائی نعیم سے کہا کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے آخری رسومات جلد ادا کرنا ہوں گی۔‘ ہم اس وقت صدمے میں تھے، ہم نہیں جانتے کس نے پاکستان کا جھنڈا تابوت کے گرد لپیٹا ہے۔سید علی گیلانی جن کی عمر 92 برس تھی یکم ستمبر کی شب سرینگر میں وفات پا گئے تھے اور ان کی تدفین 2 ستمبر کو علی الصبح کر دی گئی تھی۔