اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )پاکستانی فوج جس طرح سرحد پر دہشت گردوں سے نبر آزما ہے، اسی طرح پولیس فورسز بھی ہیں جو کہ اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر وقت چوکنا رہتی ہے۔ آج آپ کو سندھ پولیس کے ایسے ہی ایک جوان کے بارے میں بتائیں گے جس نے عید ہو یا رمضان، خوشی کا موقع ہو یا پھر غمی کا، ہر لمحے اپنے فرض کو پورا کرنے میں گزار دیا، حتیٰ کہ
شہادت بھی اپنا فرض پورا کرتے ہوئے ہوئی۔ہماری ویب کی رپورٹ کے مطابق جی ہاں، چوہدری اسلم انہی شہید آفیسرز میں شامل ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ میں ان دہشتگردوں کی نسلیں تباہی کر دوں گا۔ حقیقت میں یہ جانباز آفیسر ان بہادر آفیسرز کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے بنا کسی سیکیورٹی کے اپنا فرض پورا کیا۔یہی وجہ ہے کہ اگر دہشتگرد کسی سے ڈرتے تھے تو وہ چوہدری اسلم تھے۔ 1967 میں ڈھوڈیال ڈسٹرکٹ میں پیدا ہونے والے اسلم چوہدری نے 1987 میں بطور ایس ایچ او پولیس فورس کو جوائن کیا تھا۔چوہدری اسلم کا شمار ان مشہور کاؤنٹر اسپیشلسٹ میں ہوتا تھا جنہوں نے 1992 سے لے کر 1994 اور 1996 سے لے کر 1997 کے آپریشنز میں انتشار پھیلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا تھا۔2004 میں چوہدری اسلم کو لیاری ٹاسک فورس کا سربراہ مقرر کیا گیا، اس عہدے کی ذمہ داریوں کو چوہدری اسلم نے بخوبی نبھایا۔2005 سے کے کر 2014 تک چوہدری اسلم نے بے شمار ٹارگٹ کلرز اور انتشار پھیلانے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا تھا۔ شہید آفیسر دہشتگردوں پر اس قدر حاوی تھا کہ دہشتگردوں نے چوہدری اسلم کے گھر پر حملہ کرا کر انہیں انتقامی کارروائیوں سے روکنے کا اشارہ دیا تھا، مگر جانباز آفیسر ٹس سے مس نہ ہوا، اور اپنے بیانیے کے عین مطابق ان کی نسلیں اجاڑ کر رکھ دی تھیں۔دہشتگردوں کے گلے میں کھٹکنے والا یہ کانٹا، چوہدری اسلم تھا۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی را نے چوہدری اسلم کو شہید کر وایا تھا، جس کا بعد ازاں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا۔لیکن ان سب میں جہاں چوہدری اسلم اپنا فرض نبھا رہے تھے وہیں ان کی اہلیہ نورین اسلم بھی انہیں ہمت اور حوصلہ دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی تھیں۔اہلیہ کا کہنا تھا کہ چوہدری صاحب اپنا فرض پورا کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، میری قربانی چوہدری صاحب کے لیے اس وقت سے ہے جب سے ہماری شادی ہوئی تھی۔ 1994 میں آپریشن ہوتے تھے اور چوہدری صاحب 18 ، 18 دنوں تک گھر نہیں آتے تھے۔ ایسے میں میں نے گھر کو سنبھالا۔ہم چوہدری صاحب کو اللہ کے حوالے کر کے گھر سے الوداع کیا کرتے تھے۔ اس سب صورتحال میں میں دو گھرانوں کو لے کر ساتھ چل رہی تھی۔ ساس سسر کی دیکھ بھال، بچوں کی پرورش اور شوہر کی فکر اور پھر پورے گھر کی دیکھ بھال۔ میں نے چوہدری صاحب کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا اور انہوں نے اپنے وطن کی خاطر اپنی جان کا نظرانہ پیش کر دیا۔نورین اسلم کا مزید کہنا تھا کہ چوہدری صاحب نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ تینوں بیٹوں اور بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر ملک بھیجنا، اگر مجھے اپنے بیٹے ملک پر قربان کرنے پڑے تو میں کر دونگی۔اپنی ایک یاد کو شیئر کرتے ہوئے نورین اسلم کا کہنا تھا کہ جب بھی میں چوہدری صاحب کو درپیش خطرات سے آگاہ کرتی تھی تو چوہدری صاحب کہتے تھے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، لیکن تم شیرنی کی طرح بچوں کی حفاظت کرنا اور گھر کو سنبھالے رکھنا۔ اسلم چوہدری نے نہ صرف پولیس بلکہ ملک و قوم کے لیے ایک ایسی قربانی دی تھی جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے اور آنے والی نسلیں ان کی اس قربانی کو یاد رکھیں گی۔