لاہور( این این آئی)گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ بڑھ کر 532 ارب روپے سے زائد ہو گیا ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی نادرن گیس پائپ لائنز کی جانب سے مالیاتی اکائونٹس کی اشاعت میں غیر معمولی تاخیر کے سبب اس شعبے کے گردشی قرضوں کی درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔تاہم گیس کے شعبے میں میں
کارپوریٹ قرضوں میں اضافے کا ایک پراکسی ظاہر کرتا ہے کہ یہ رقم مارچ کے آخر میں 532 ارب 20 کروڑ روپے رہی جو جون 2020 کے مقابلے میں 5.5 فیصد زیادہ ہے۔حکومت نے باضابطہ طور پر اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ گیس کے شعبے میں گردشی قرضے کیا رہے ہیں تاہم تجزیہ کار سوئی کمپنیوں کے او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کو قابل ادا رقم سے اس کا اندازہ لگاتے ہیں۔مارچ کے آخر میں ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کی جانب سے او جی ڈی سی کی قابل ادا رقم 272 ارب 30 کروڑ روپے تھی جبکہ پی پی ایل کے بیلنس شیٹ پر یہ اعدادوشمار 259 ارب 90 کروڑ روپے تھے۔آئی ایم ایف کے تحت قرض پروگرام کے تازہ جائزے کے مطابق گیس کے شعبے میں بقایا جات مجموعی طور پر 20-2019 میں جی ڈی پی کا 0.5 فیصد تھا۔آئی ایم ایف نے لاگت اور ریونیو کے درمیان تضاد پر توقع کی تھی کہ 21-2020 کے آخر میں اس میں 0.1 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ری گیسفائڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی)کی
اعلی مقدار ممکنہ طور پر سردیوں کے موسم میں مہنگے بجلی کے شعبے سے کم قیمت والے گھریلو صارفین کی طرف موڑ دی گئی تھی جس سے گردشی قرضوں کا حجم بڑھا ہے۔توانائی کے شعبے کے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت کے لیے ایک ممکنہ آپشن یہ ہے کہ سوئی کمپنیوں کو سبسڈی دی جائے تاکہ وہ او جی ڈی سی اور پی پی ایل کو ادائیگی کرسکیں، اس کے بعد توانائی کی ایکسپلوریشن کے دو ادارے اس رقم میں سے کچھ رقم حکومت کو منافع کی شکل میں واپس کرسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ گیس کی اوسط قیمت کے حساب سے ٹیرف میں اضافہ کیا جائے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے رائے طلب کرنے کے لیے وزیر توانائی حماد اظہر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کوئی جواب موصول نہ ہوسکا۔