منگل‬‮ ، 22 اپریل‬‮ 2025 

ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے، اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی پر معاشی تجزیہ کار بھی چونک گئے

datetime 3  اپریل‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی( این این آئی)حکومتی وزراء اور مشیرکی جانب سے عوام پرمہنگائی کے بوجھ کی پیش گوئی کے بعداسٹیٹ بینک کی آئندہ 2ماہ کیلئے جاری کردہ مانیٹری پالیسی پراکنامک تجزیہ نگاروں اور پیشہ تجارت سے وابستہ افراد وسرمایہ کاربھی چونک گئے ہیں اوریہ خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے۔وزیراعظم عمران خان حکومت کے اہم ترین وزیر خزانہ اسد عمر ،مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور دیگر وزراء کی جانب سے ملک کے عوام پر مہنگائی کا بوجھ

پڑنے،ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر خطرناک حد تک مزید کم ہونے ،اسٹیٹ بینک کی نئی مالیا تی پالیسی میں ملکی خسارہ کم ہونے کے باوجود بلندرہنے ،اخراجات میں اضافے اور محاصل میں کمی رہنے کی نوید سنائے جانے کے بعد ماہرین معیشت یہ خیال ظاہرکرنے لگے ہیں کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے نئے بیل آؤٹ پیکج کو حاصل کرنے کیلئے کہیں عوام کو مہنگائی کے اژدھے کے سامنے پھینکنے تو نہیں جارہی جبکہ دوسری جانب صنعتکار اور سرمایہ کاروں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کو بلاوجہ قرار دیا ہے اور انکا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافہ صرف بینکوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا ہے ورنہ موجودہ صورتحال میں شرح سود میں اضافے کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دے رہی۔شرح سود 50بیسز پوئنٹس اضافے سے قرضوں کی لاگت بڑھ جائے گی جس سے انڈسٹری سیکٹر کے منافع میں بھی کمی آئے گی جس سے حکومت کے ریونیو کو بھی دھچکا پہنچے گاباالخصوص ٹیکسٹائل،سیمنٹ،اسٹیل،آٹوسیکٹر دباؤ میں رہیں گے۔اسٹیٹ بینک کی نئی مالیاتی پالیسی ظاہرکررہی ہے کہ مہنگائی کی شرح گزشتہ مالیاتی پالیسی کی نسبت تقریباً ایک فیصد زائد رہے گی کیونکہ یکم جنو ری 2019 کو 2ماہ کیلئے جاری کردہ مانیٹری پالیسی میں مہنگائی کی شرح 6فیصد تھی جو گزشتہ برس کی اسی مدت کے3.8فیصد کے مقابلے میں 2.2فیصد زائد تھی اور

موجودہ دور حکومت میں مہنگائی کی یہ شرح گزشتہ دور حکومت کے آخری ایام کی نسبت کہیں زیادہ ہے جبکہ 29مارچ2019کو جاری کردہ نئی مانیٹری پالیسی میں مہنگائی میں اضافے کی شرح ساڑھے چھ فیصد سے ساڑھے سات فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ذرائع آمدنی بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں،کاروباری حالات بھی ماضی کی نسبت زیادہ بہتر نہیں ہو پائے ہیں،معاشی تنگی کے اثرات بڑے پیمانے پر

صنعتی تنزلی کا سبب بن رہے ہیں۔ملک میں نئی حکومت کے قیام کے بعد عملاً مقامی یا غیرملکی سرمایہ کاری شروع نہیں ہوسکی ہے البتہ غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے ایم او یوز پر دستخط ضرور کرلئے گئے ہیں لیکن ابھی تک یہ سرمایہ کاری صرف پیپرزتک ہی محدود ہے۔اعداد د شمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال2018-19 کے پہلے 8 ماہ میں غیرملکی سرمایہ کاری گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً ساڑھے 3 ارب ڈالر کم رہی ہے ۔

پاکستان کے غیرملکی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں جنہیں کم کرنے کیلئے عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں مگر حکومت کا ہرقدم مہنگائی کا سیلاب لا رہا ہے جسے کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے۔عوامی سطح پر اور بزنس کمیونٹی کے خیال میں حکومت مہنگائی کا نیا طوفان آئی ایم ایف کوخوش کرنے کیلئے لارہی ہے جبکہ ملک کے ایک معروف سرمایہ کار کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہمیں اپنا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو پھر کچھ کڑوے گھونٹ پینا پڑیں گے

لیکندوسری جانب ایف بی آر محصولات وصولی کیلئے نئے ٹیکس دہندگان پر محنت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ایف بی آر نے کئی بار نئے ٹیکس دہندگان کی تلاش کیلئے سروے کیا اور ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی مگر اس رپورٹ پر سنجیدگی سے کوئی عمل ہی نہیں کیا گیا جبکہ ایف بی آر نے ٹیکس کا دائرہ بڑھانے اورٹیکس آمدنی میں اضافے کی غرض سے لاکھوں روپے تنخواہیں پانے اور بے انتہا مراعات حاصل کرنے والے تقریباً210سے زائد اعلیٰ سرکاری افسران کا سراغ لگایاتھا

جو اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے اور نہ ہی کوئی ٹیکس ادا کرتے ہیں،شاہانہ زندگی گزارنے والے مذکورہ سرکاری افسران کے خلاف تاحال کوئی کاروائی نہیں کیجاسکی ہے اور نہ ہی اب تک انہیں کوئی نوٹسز بھیجے گئے ہیں۔اس ضمن میں ایف پی سی سی آئی کے ایک سابق صدر کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں ریونیو بڑھانے کیلئے ایف بی آر افسران دیانتداری سے کام نہیں کریں گے اس وقت تک ملکی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوگااورآمدنی نہ بڑھنے سے ہر حکومت نہ چاہنے کے باوجود آئی

ایم ایف کے سامنے کشکول لئے کھڑی رہے گی۔ پاکستان کا واجب الادا غیر ملکی قرضوں کا حجم 99 ارب80 کروڑ ڈالرسے زائد ہے ،اس میں وہ قرضے شامل نہیں ہیں جو موجودہ حکو مت کو زرمبادلہ کے ذخائرمستحکم کرنے کیلئے ملے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ملک میں معاشی استحکام کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہونا بھی شروع ہوگئے ہیں کیونکہ مرکزی بینک کی رواں مالیاتی پالیسی میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ 2019 کے پہلے دو ماہ کے دوران جاری کھاتوں کے خسارے میں نمایاں کمی آئی ہے، جس سے غیر یقینی کی کیفیت کو کم کرکے کاروباری اعتماد میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔



کالم



Rich Dad — Poor Dad


وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…