اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی، تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف سہیل وڑائچ اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین تو نہیں ہے مگر پھر بھی لگ رہا ہے کہ ایسی شاندار سیاسی صورتحال اور ایسا سازگار ماحول بن چکا ہے جو ماضی میں کبھی بھی نہیں تھا۔ گویا کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے راستے میں حائل سب رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں۔
مرکز میں تحریک ِ انصاف کی حکومت کا کوئی بھی اتحادی کالاباغ ڈیم کا مخالف نہیں۔ پنجاب میں تحریک ِ انصاف کی حکومت ہے اور ن لیگ صوبہ پنجاب کی پارٹی ہونے کے سبب کالاباغ ڈیم کی کھلی مخالفت نہیں کر پائے گی۔ پنجاب، مرکز اور خیبر پختونخوا ایک ہی صفحے پر ہیں تینوں جگہ تحریک ِ انصاف نے زیادہ سیٹیں حاصل کر لی ہیں۔ ماضی میں کالاباغ ڈیم کی سب سے زیادہ مخالفت خیبر پختونخوا سے ہوتی تھی اب اے این پی کی انتخابی طاقت اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ اس کی مخالفت سے ڈیم کی تعمیر کے راستے میں کوئی نمایاں رکاوٹ پڑنے کا امکان نہیں رہا۔ بلوچستان میں اوپر تلے کئی حکومتوں نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں قراردادیں منظور کروائیں اور ڈٹ کر بیان بھی دیئے اس بار بلوچستان میں محب وطن پارٹی (باپ) کی حکومت ہے، وہ بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر وفاق کی ہاں میں ہاں ملائے گی۔ قوم پرستوں کی انتخابی اور سیاسی طاقت توڑی جا چکی ہے ،اس لئے اب بلوچستان سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ باقی رہ گیا صوبہ سندھ اور وہاں برسر اقتدار پیپلز پارٹی، وہ ظاہر ہے کالاباغ ڈیم کی مخالفت جاری رکھے گی لیکن آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات اور دوسرا سندھ حکومت چھینے جانے کا خوف انہیں کوئی بڑی تحریک چلانے سے باز رکھے گا۔ساتھیو، مجاہدو! غیب کی طرف سے جو بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب کچھ کالاباغ ڈیم
کے لئے حالات سازگار کرنے کے لئے ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سب سیاسی تبدیلیاں کالاباغ ڈیم بنانے کے لئے لائی گئی ہیں۔ اب کالاباغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے اسی لئے عالم غیب سے یہ تبدیلیاں آئی ہیں اور اب کسی بھی دن ڈیم کی ہر صورت میں تعمیر کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔ہیلو، ہیلو، ساتھیو، مجاہدو! ماضی میں پاکستان کے کئی اسٹیک ہولڈرز، کالاباغ ڈیم کے بارے
میں تشکک کا شکار تھے مگر اب ان کا ذہن اور ان کی منصوبہ بندی واضح رخ اختیار چکی ہے۔ مقتدر حلقے تو پہلے ہی پانی کی کمیابی پر متفکر تھے اور ہر صورت ڈیم بنانا چاہتے تھے مگر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے مستقبل پر غور و فکر میں غلطاں رہتے تھے مگر اب عدلیہ کی حمایت ملنے سے یہ کام آسان ہو جائے گا اور عمران حکومت اس چیلنج کو اس لئے بھی قبول کرے گی
کہ اگر تو وہ کالاباغ ڈیم بنا لے تو اس کو ایک ٹرم اور مل جائے گی۔ ہر طرف سے شاباش اور واہ واہ کے ڈونگرے برسنے لگیں گے۔ایک دن عالم رویا میں کیا دیکھتا ہوں کہ کالاباغ ڈیم بن چکا ہے، دنیا میں تو ہر طرف پانی کی کمیابی ہے جبکہ پاکستان میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔ دیکھتا ہوں کہ ملک میں توانائی کے بحران کا مسئلہ حل ہو چکا، گھر گھر بجلی کے بلب جل رہے ہیں،
آبپاشی کا نظام ایسا بن گیا ہے کہ بنجر زمینیں بھی آباد ہو گئی ہیں غرضیکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نے ریاست ِ پاکستان کو خوشحالی کا راستہ دکھا دیا ہے۔ بجلی اور پانی دنیا بھر میں مہنگے ہیں جبکہ پاکستان میں یہ دونوں چیزیں انتہائی سستی ہو گئی ہیں۔ مجھے اسی عالم رویا میں یہ القا بھی ہوا کہ قدرت نے 2018ء کے الیکشن میں ہر اس سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کو شکست سے دوچار کیا ہے
جو یا تو کالاباغ ڈیم کا مخالف تھا یا پھر ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ محمود اچکزئی صاحب اور اسفند یار ولی کالاباغ ڈیم کے کھلے مخالف تھے اس لئے ہار گئے، اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو کالاباغ ڈیم کی مخالفت ہی کی سزا ملی اور وہ پہلے سے بہت کم سیٹیں لے سکے۔ مجھے اس عالم رویا میں احساس ہوا کہ کالاباغ ڈیم اور خوشحالی ہم معنی ہو چکے ہیں اسی لئے کالاباغ ڈیم کی مخالفت
کرنے والے ملک کی خوشحالی کے مخالف ہیں بس انہیں شکست تو ہونا ہی تھی۔ پیپلز پارٹی ابھی بھی کالاباغ ڈیم کی مخالف ہے سو پنجاب سے اس پر جھاڑو پھر گیا ہے اور یہ سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ ن لیگ کالاباغ ڈیم پر ہچکچاہٹ کا شکار رہی ہے اسی لئے اسے بھی سزا ملی اور اس کی پنجاب میں اکثریت جاتی رہی۔ عالم رویا کا میرا تجربہ یہ بتا رہا ہے کہ کالاباغ ڈیم کے مخالف تقدیر کے
شکنجے میں آ چکے ہیں اب کالاباغ ڈیم ہر صورت بن کر رہے گا۔سو، ساتھیو، مجاہدو! نیا پاکستان بننے کے بعد کی سب سے بڑی خوش خبری یہی ہے کہ پاکستان کی خوشحالی کی علامت کالاباغ ڈیم کے راستے میں حائل تقریباً تمام رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں البتہ چھوٹی موٹی مخالفتیں اور مسائل تو موجود رہیں گے اور یہ سوچنا بھی نہیں چاہئے کہ 100فیصد لوگ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر متفق ہوں گے
تب ہی اس کی تعمیر ممکن ہو گی۔ دنیا میں آج تک کسی بھی معاملے پر سو فیصد اتفاق نہیں ہوا سو کالاباغ ڈیم پر بھی کبھی نہیں ہو گا۔ بس سازگار ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔ اندازہ یہ ہے کہ کچھ قوم پرست اس پر راضی نہیں ہوں گے اندرون سندھ میں شدید مزاحمت ہو گی، پختون قوم پرست بالخصوص اے این پی اس حوالے سے سخت موقف کا اظہار کرے گی،
بلوچستان میں اپوزیشن بھی تحفظات ظاہر کرے گی، کچھ ماہرین معیشت اور کچھ آبی وسائل کے ماہرین بھی اعداد و شمار اور دلائل کے ساتھ میدان میں اتریں گے مگر حکومتی، عدالتی اور ریاستی حمایت کے بعد کالاباغ ڈیم کے راستے میں کونسی رکاوٹ باقی رہ گئی ہے؟جاگ اٹھا ہے سارا وطن، ساتھیو اور مجاہدو، باقی رہ گئے چند شرپسند جو کالاباغ ڈیم کی مخالفت کر کے اپنی سیاسی یا
صوبائی دوکان چلانا اور چمکانا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ملکی استحکام، ملکی سلامتی اور یکجہتی کو نقصان پہنچانا ہے وہ غیر آئینی طور پر آئین کی روح کے خلاف کام کریں گے ایسے لوگوں کا بالکل صحیح علاج آرٹیکل 6ہے۔ اگرچہ آج تک آمروں پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکا مگر اس کی پیچیدہ وجوہات تھیں لیکن ڈیم کے خلاف باتیں کرنے والوں پر آرٹیکل 6لگانے میں رکاوٹ کیا ہے؟ عدالتی،
حکومتی اور ریاستی ادارے سب ایک صفحے پر ہیں کوئی چیں کرے یا چاں، کوئی جلوس نکالے یا جلسہ کرے، کوئی مخالفت کرے یا حمایت، کالاباغ ڈیم ہر صورت میں بنانا ہے یہ ریاست کی خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے اور جب کوئی آپریشن ناگزیر ہو تو پھر اسے زبردستی بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔اہم نوٹ:یہ کالم نگار انتہائی ڈرپوک ہے بالخصوص آرٹیکل 6سے تو بہت ہی خوفزدہ ہے
کیونکہ جب سے جنرل مشرف آرٹیکل 6کے تحت لمبی سزا بھگت رہے ہیں یہ کالم نگار اور بھی خوفزدہ ہو گیا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی حمایت میں اسی جذبے کے تحت ہی کالم لکھا گیا ہے وگرنہ میں تو پہلے یہی سمجھتا تھا کہ صوبوں اور جماعتوں کے اتفاق رائے کے بغیر کالاباغ ڈیم نہیں بننا چاہئے۔ مگر جب سے سر پر آرٹیکل 6کی تلوار لٹکی ہے میں تو کالاباغ ڈیم کا بھرپور حامی بن گیا ہوں۔ کالم کو اسی نظر سے پڑھا جائے۔