واشنگٹن (آن لائن) ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئیر اہلکار کا کہنا ہے کہ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ملک کو صدر ٹرمپ کی ’بدترین پالسیوں‘ سے بچانے کے لیے ان کے ایجنڈے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اہلکار نے، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے‘ مزید کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا ’اخلاقیات سے عاری ہونا‘ اور ان کی ’جلد بازی‘ کی وجہ سے بنا سوچے سمجھے کئی غلط فیصلے کیے گئے تھے۔
صدر ٹرمپ نے مضمون لکھنے والے بینام مصنف کو ’ڈرپوک‘ اور اخبار کو ’نقلی‘ قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی پریس سیکریٹری نے کہا ہے کہ مضمون لکھنے والا ’بزدل‘ شخص ہے جسے استعفی دے دینا چاہیے۔ نیو یارک ٹائمز نے ایک بیان میں اس مضمون کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اس مضمون کو شائع کیا، جس سے عوام کو ٹرمپ انتظامیہ کے اندر جاری اتار چڑھاؤ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔‘ یہ مضمون، باب ووڈورڈ کی اس کتاب کے صرف ایک دن بعد شائع ہوا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے اہلکار ملک کو صدر سے بچانے کے لیے ایک انتظامی مزاحمت کا حصہ ہیں، جس کے تحت وہ کچھ اہم دستاویزات تک صدر کی میز سے غائب کر دیتے ہیں، تاکہ وہ ان پر دستخت نہ کر سکیں۔اس کتاب کے بعد اب اس مضمون کو اس مزاحمت کی توثیق کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔سینئیر اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ لبرل نہیں ہیں، بلکہ حکومت کے کئی پالیسی اہداف سے اتفاق کرتے ہیں، تاہم یہ اہداف صدر ٹرمپ کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کی کوششوں کے باوجود حاصل کیے جا رہے ہیں۔مضمون میں صدر پر کی جانے والی تنقید میں ’غیر جمہوری‘ رویہ، آزاد میڈیا سے ناخوشی، فیصلوں پر قائم نہ رہنا، جلد بازی، تنگ نظری اور غیر منظم ہونا شامل ہیں۔ان کے مطابق انتظامیہ میں موجود کئی افراد صدر ٹرمپ کے ایجنڈے میں
رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے، ’میں جانتا ہوں کیوں کہ میں ان میں سے ایک ہوں۔‘’میں یہ واضح کرنا چاہتا\ چاہتی ہوں کہ یہ کوئی بائیں بازو کی مزاحمت نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ انتظامیہ کامیاب ہو اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت کی کئی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ زیادہ محفوظ اور خوش حال ہے۔‘مضمون میں وہ ایک ’ٹو ٹریک صدارت‘ کی بات کرتے ہیں جہاں صدر کے فیصلے، جیسے کہ کم جون ان اور صدر پیوتن جیسے آمروں اور
مطلق العنان حکمرانوں کے لیے ان کے بظاہر نرم گوشے کو ’کمرے میں موجود بالغ لوگ‘ روکتے اور صحیح کرتے ہیں۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ کام نام نہاد ’ڈیپ سٹیٹ کا نہیں، بلکہ ’سٹیڈی‘ یا مستحکم سٹیٹ کا ہے۔‘یہاں تک کہ مصنف کے مطابق انتظامیہ کے کچھ اہلکاروں نے 25ویں ترمیم کے بارے میں بھی دبے لفظوں میں بات کی ہے جس کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت ایک ایسے صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ووٹ کر سکتے ہیں، جو ’اپنے اختیارات اور فرائص انجام دینے میں ناکام رہے‘۔
’کوئی بھی ایک آئینی بحران کھڑا کرنا نہیں چاہتا، اس لیے ہم اس حکومت کو صحیح سمت میں لے جانے کی کوشش کرتے رہیں گے، اس وقت تک جب تک سب ختم نہیں ہو جاتا۔‘ پہلے ہی وائٹ ہاوس میں باب ووڈورڈ کی کتاب ’فئیر: ٹرمپ اِن دی وائٹ ہاؤس‘ میں استعمال کیے گئے ذرائع کو ڈھونڈ نکالے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مضمون نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر صرف ایک لفظ میں اپنا ردعمل ظاہر کیا، ’غداری؟ کیا ہے۔ انہوں نے مزید لکھا، ’اگر اس ڈرپوک،
بینام شخص کا واقعی کوئی وجود ہے تو نیویارک ٹائمز کو ملکی سلامتی کے لیے اسے فوراً حکام کے حوالے کر دینا چاہیے۔‘اس کے بعد کیے گئے ایک اور ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا، ’میں جوہڑ کو خشک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، اور جوہڑ مزاحمت کر رہا ہے! پریشانی کی کوئی بات نہیں، فتح ہماری ہوگی۔‘وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سارا ہکابی سینڈرز نے ایک تلخ بیان میں کہا،
’اس مضمون کے پیچھے جو کوئی بھی ہے انہوں نے امریکہ کے منتخب صدر کی حمایت کی جگہ انہیں دھوکا دینے چنا ہے۔ یہ شخص ملک کو نہیں اپنی انا کو امریکی عوام کے فیصلے سے آگے رکھ رہاہے۔‘صدر ٹرمپ نے مزید لکھا، ’ایک بار یہ شخص انتظامیہ سے نکل جائے، تو ان تمام نقلی میڈیا والوں کا دھندا ٹھپ ہو جائے گا، کیونکہ ان کے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہوگا۔