اسلام آباد (نیوز ڈیسک) گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد رہنماؤں، ارکانِ اسمبلی اور کارکنوں کو 9 مئی 2023 کے واقعات میں ملوث ہونے پر قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ یہ واقعات جلاؤ گھیراؤ، سرکاری و عسکری عمارتوں پر حملوں اور پرتشدد کارروائیوں سے متعلق تھے۔ریاستی مؤقف کے مطابق 9 مئی کے دن پیش آنے والے واقعات کو ایک باقاعدہ اور منظم منصوبے کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے، جسے ملک کے خلاف ایک دانستہ سازش کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش کیے گئے مقدمات میں پراسیکیوشن کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد میں اس مبینہ سازش کی منصوبہ بندی اور اس کے ممکنہ مقامات کا بھی ذکر موجود ہے۔لاہور، فیصل آباد اور سرگودھا میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے سامنے آنے والے فیصلوں میں پی ٹی آئی کے کئی اہم افراد کو دس سال قید کی یکساں سزائیں سنائی گئیں۔ ان فیصلوں میں لاہور پولیس کے دو اہلکار حسام افضل اور محمد خالد کی گواہیاں مشترک تھیں، جبکہ فیصل آباد اور سرگودھا کے مقدمات میں راولپنڈی پولیس کے اسپیشل برانچ کے سابق انسپیکٹر عصمت کمال کی گواہی بھی شامل کی گئی۔پراسیکیوشن کے مطابق، ان پولیس اہلکاروں نے عدالت کو بتایا کہ وہ خود کو پی ٹی آئی کارکن ظاہر کر کے متعدد ’خفیہ اجلاسوں‘ میں شریک ہوئے، جہاں مبینہ سازش کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئیں۔
فیصل آباد اور سرگودھا کے عدالتی فیصلوں میں انسپیکٹر عصمت کمال کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ انھیں ایک مخبر سے اطلاع ملی جس کے بعد وہ چار مئی کو چکری کے قریب موٹروے پر واقع ایک ہوٹل میں ہونے والی خفیہ ملاقات میں بطور پی ٹی آئی کارکن شامل ہوئے۔ وہاں مبینہ منصوبے پر بات چیت کی گئی، جسے بعد ازاں پراسیکیوشن نے بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا۔یہ گواہیاں اور عدالتی فیصلے حکومت کے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات محض عوامی ردعمل نہیں تھے، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھے، جس میں پی ٹی آئی کے مرکزی کردار شامل تھے۔