اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ عدالتوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 100 سے زائد انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی سے متعلق فیصلہ آنا باقی ہے جو کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ای سی پی کے اعلیٰ حکام نے بتایا
کہ عدالتوں میں مجموعی طور پر 108 انتخابی امیدواروں کے مقدمات زیر سماعت ہیں، صرف 81 مقدمات سندھ میں ہیں، جس پر کمیشن کو دباؤ کا سامنا ہے کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے متعدد حلقوں کے لیے بیلٹ پیپر کی پرنٹنگ جزوی طور پر روک دی جائے۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ ایک درجن سے زائد مقدمات لاڑکانہ بینچ میں زیرسماعت ہیں جس میں سے ایک مقدمے کی سماعت 24 جولائی مقرر ہے، یعنی پولنگ کے دن سے ایک روز قبل جبکہ متعدد مقدمات کی سماعت 17 اور 19 جولائی ہے۔واضح رہے کہ ایپلیٹ ٹریبیونل نے نثاراحمد کھوڑو کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں تین کے بجائے دو اہلیہ کا ذکر کیا اور مکمل اثاثے ظاہرنہیں کیے تھے جس کی بنیاد پر ٹریبیونل نے حلقہ 11 (لاڑکانہ) سے نثار احمد کھوڑو کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے تھے۔بعدازاں نثار احمد کھوڑو نے ٹریبیونل کے فیصلے کے خلاف اپیل دائرکر رکھی ہے۔سکھر بینچ میں انتخابی امیداروں کے تقریباً 14 مقدمات زیر سماعت ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے منظور حسین وسان کا کاغذات نامزدگی کی منظوری سے متعلق مقدمہ زیر سماعت ہے تاہم ان کے کیس کی اگلی سماعت 18 جولائی ہے۔منظور حسین وسان پی ایس 27 (خیرپور) سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تاہم دبئی میں مبینہ اثاثے چھپانے کی بنیاد پر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تھے۔ سندھ ہائی کورٹ کی کراچی بینچ میں تقریباً 37 انتخابی امیدواروں کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ متعدد مقدمات میں اگلی سماعت کی تاریخ واضح نہیں
جس کے نتیجے میں الیکشن میں تاخیر کے خدشات گہرے ہو رہے ہیں۔پنجاب میں کاغذات نامزدگی سے متعلق 22 مقدمات ریٹرنگ افسران اور ٹریبیونل میں زیر سماعت ہیں، جس میں سید فدا حسین (این اے 115، جھنگ)، میاں محمد منیر (این اے 126، لاہور) اور زیب (این اے 131، لاہور) کاغذات نامزدگی پر فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔بلوچستان میں 5 مقدمات ہیں
تا ہم خیبر پختونخوا ہائی کورٹ میں کوئی پٹیشن زیر سماعت نہیں ہے۔اس حوالے سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیشن اینڈ ٹرانسپیرنسی کے صدر احمد بلال محبوب نے بتایا کہ پاکستان میں بھارت کی طرح الیکڑول اور پارلیمانی نظام ہے، ادھر ریٹرنگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے اور الیکشن کے بعد ہی انتخابی پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔