اسلام آباد(نیوزڈیسک )آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی نندی پور پاور پروجیکٹ کے بارے میں 21صفحات پر مشتمل خصوصی اور کمرشل آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزارت پانی و بجلی اور پروجیکٹ کی انتظامیہ نے پی سی ون سے انحراف کرتے ہوئے پروجیکٹ کے آپریشنل اور مینٹی نینس (او اینڈ ایم) آئوٹ سورسنگ (بیرونی معاہدے) کی منظوری دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت اور انتظامیہ دونوں نے ہی پی سی۔ ون کی کھلی خلاف ورزی کی۔ تاہم رپورٹ میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ پاور سیکٹر میں نگراں ادارے نیپرا نے اس کی کیسے منظوری دی۔ اس مد میں ریگولیٹر نے قابل تبدیل او اینڈ ایم ٹیرف صفر اعشاریہ 46روپے فی یونٹ اور فکسڈ او اینڈ ایم صفر اعشاریہ 21روپے فی یونٹ کی منظوری دی۔ اس طرح ریگولیٹر بھی اس کی زد میں آتا ہے لیکن رپورٹ میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ رپورٹ میں جینکو۔III کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو اپنے اس مؤ قف پرقائم ہیں کہ پروجیکٹ کے او اینڈ ایم کی آئوٹ سورسنگ کا پی سی ۔ون میں قانونی طور پر احاطہ نہیں کیا گیا کیونکہ پی سی۔ ون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن بعدازاں بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اپنے مؤقف سے انحراف کیا، متعلقہ وزارت اور پروجیکٹ مینجمنٹ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے جب بورڈ آف ڈائریکٹرز نے فیصلہ کیا کہ ای سی پی کنٹریکٹر ڈونگ فونگ کو 6ماہ کے لئے پروجیکٹ چلانے اور دیکھ بھال کے لئے کہا جائے۔ اسی اثناء او اینڈ ایم کنٹریکٹر کے لئے بین الاقوامی بولیاں لینے کا عمل شروع کیا جائے۔ روزنامہ جنگ کے صحافی خالدمصطفی کی رپورٹ کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پلانٹ کو چلانے اور دیکھ بھال کے لئے کسی نجی کمپنی کو پروجیکٹ دینے کے بارے میں اپنا ذہن تبدیل کیا۔ رپورٹ کے مطابق پروجیکٹ کے بارے میں خیال تھا کہ کسی جنریشن کمپنی سے اپنے ہی عملے کے ذریعہ اسے چلایا جائے۔ اس حوالے سے نظرثانی شدہ پی سی۔ ون میں 308 اَسامیوں کی منظوری بھی دی گئی۔ تاہم رپورٹ میں اس بات کی درست نشاندہی کی گئی کہ اگر او اینڈ ایم کے ٹھیکے کو نظرثانی شدہ پی سی۔ ون کا حصہ بنایا جاتا تو اس معاملے میں تاخیر کے مسئلہ سے بچا جا سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیکرٹری کی سربراہی میں متعلقہ وزارت کو ٹھیکہ آئی سی بی کے ذریعہ او اینڈ ایم کے لئے نجی کمپنی کو دیئے جانے کا معاملہ منسلک کرنا چاہئے تھا۔ جب نظرثانی شدہ پی سی۔ ون پروجیکٹ کی منظوری کے لئے پلاننگ کمیشن میں پیش کیا جا رہا تھا۔ لیکن وزارت نے بدقسمتی سے یہاں اپنی نااہلی دکھائی جس کی وجہ سے غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ خلاء پر کرنے کے انتظام کے تحت پروجیکٹ اس وقت عارضی انتظام کے تحت جی ای اور الباریوکے عملے کے ذریعہ چلا رہا ہے۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کس طریقہ کار کے تحت اب ایسا کیا جارہا اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیرعلی کا کہنا ہے کہ وزارت نے نیک نیتی کے ساتھ پی سی۔ ون سے ا نحراف کیا۔ انہوں نے کہاکہ سرکاری شعبے میں گدو پاور پلانٹ کو چلانے میں مشکلات اور مقدمہ بازی کا سامنا ہے۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت نے نندی پور پاور پلانٹ چلانے اور مطلوبہ پیداوار کو یقینی بنانے کی ضمانت کے ساتھ غیر ملکی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے وزیر مملکت نے کہاکہ جینکو ہی بدستور او اینڈ ایم پر نظر رکھنے اورنگرانی کے عمل کی جاری رکھے گی اور ذمہ دار ہو گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پی سی۔ ون میں بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزارت بین الاقوامی بولی کو حتمی شکل دینے کے لئے تندہی سے کام کررہی ہے۔ اس حوالے سے قومی اخبارات میںاشتہارات دو ہفتوں میں جاری کر دیئے جائیں گے۔