اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دولت اسلامی “داعش” کہلوانے والی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ جنگجو معمولی نوعیت کے واقعات کی پاداش میں تنظیم کی صفوں میں شامل ہونے والوں کو بھی موت سے کم سزا پر راضی نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک داعشی دوشیزہ کا ہے جسے تنظیم کے جنگجوﺅں نے ہولناک تشدد کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق داعش سے بغاوت کے بعد فرار ہو کر ترکی پہنچنے والی ایک لڑکی سابینا سلیموبیک نے آسٹرین اخبارات کو بتایا کہ اس کی ساتھی 18 سالہ بوسنیائی نڑاد سامرا کیو فیٹچ کو داعشی جنگجوﺅں نے اتنا تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ موت سے ہمکنار ہو گئی۔ فرار ہونے والی لڑکی نے بتایا کہ وہ دونوں پچھلے برس اپریل میں آسٹریا کے شہر ویانا میں اپنے گھروں سے چپکے سے فرار کے بعد ترکی کے راستے شام میں داعش میں شمولیت کے لیے پہنچی تھیں۔ اس نے بتایا کہ ہمیں شام میں جہاد پر اکسایا گیا تھا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ کر کے ہمیں شام کے سفر پرمجبور کیا گیا۔ شام پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ داعش کے پروپیگنڈے کا شکار ہونےوالی لڑکیوں میں بڑی تعداد میں کم عمر دو شیزائیں شامل ہیں۔
اہل خانہ کے لیے پیغام
آسٹریا میں روپوشی سے قبل دونوں لڑکیوں نے اپنے اہل خانہ کے لیے ایک مشترکہ پیغام چھوڑا جس میں انہوں نے لکھا کہ “ہم صراط مستقیم کی راہ پر چل پڑی ہیں۔ ہم نے شام کا سفر شروع کیا ہے۔ امن کے قیام کے لیے شام جا رہی ہیں۔ ہماری تلاش میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ ہم اللہ کے راستے میں جہاد کریں گی اور شہید ہو کر سروخرو ہوں گی۔ ہماری آپ سے ملاقات اب جنت میں ہو گی”۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ان لڑکیوں کا اپنے والدین اور دیگر اقارب کے نام یہ پیغام رواں سال ستمبر میں آسٹریا کے مقامی اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ تاہم ان لڑکیوں کی گم شدگی کے کچھ عرصے بعد ان لڑکیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھی گئی تھیں۔ تصاویر میں انہوں نے کلاشنکوفیں اٹھا رکھی تھیں۔ یہ تصاویر رقہ شہر میں لی گئی تھیں اور ان کے چاروں اطراف داعشی جنگجوﺅں کا ھجوم دکھائی دیتا تھا۔روں سال ستمبر میں ایک لڑکی کی شام میں ہلاکت کی خبر سامنے آئی جس کی شناخت “سابینا سلیموبیک” بتایا گیا۔ آسٹرین خاتون وزیرخارجہ یوھانا میکل لایٹنر نے بتایا کہ شام فرار ہونے والی لڑکی اپنی ہی گولی سے ہلاک ہوئی ہے تاہم اس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ تاہم پچھلے سال دسمبر میں نیویارک میں سلامتی کونسل میں ایک وکیل نے بتایا کہ شام میں آسٹریا کی ہلاک ہونے والی لڑکی کی موت لڑائی کے دوران ہوئی ہے۔ اس کی سہیلی سامرا کو داعشیوں نے تشدد کر کے قتل کر دیا ہے۔آسٹرین اخبارات نے Österreich اور Zeitung Kronen نے فرار ہونے کے بعد ترکی پہنچنے والی لڑکی کا بیان نقل کیا ہے اور صرف اتنا بتایا ہے کہ اس کی ساتھی کو داعشی جنگجوﺅں نے تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ مفرور دوشیزہ نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ اس کی ساتھی کو داعشی جنگجوﺅں نے کب، کیوں اور کیسے ہلاک کیا۔ آسٹرین وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ بھی اس حوالے سے تا حال خاموش ہیں۔شام پہنچنے کے کوئی چھ ماہ بعد دونوں لڑکیوں نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ “ٹیوٹر” پر اپنے بعض احباب سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ شام میں ہیں جہاں خوش گوار زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ہم تک کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ہم ‘مجاھدین’ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے جا رہی ہیں تاکہ مقدس جنگجو کا مرتبہ حاصل کر سکیں۔ موت ہمارا مقصد ہے۔آسٹرین حکام کا دعویٰ ہے کہ دونوں لڑکیوں کو سوشل میڈیا پر داعشی عناصر کی جانب سے بہکایا گیا۔ دونوں لڑکیوں کی پیدائش آسٹریا کی ہے تاہم ان کا آبائی تعلق وسطی ایشیائی ریاست بوسنیا سے ہے۔
جنگجوﺅں نے ‘داعشی دوشیزہ’ موت کے گھاٹ اتار دی
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں