اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)شہنشاہ قوالی استاد نصرت فتح علی خان نے اپنے فن موسیقی اور قوالی سے نا صرف پاکستان اور بھارت بلکہ مغربی دنیائے موسیقی میں بھی نام کمایا ہے اسی لیے نصرت کی یادیں ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔نصرت فتح علی خان 13 اکتوبر 1948ء کو فیصل آباد کے جھنگ بازار میں رہائش پذیر ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جس کو کئی نسلوں سے فن قوالی وراثت میں ملتا آ رہا تھا۔نصرت کے قریبی دوست اور ہمسائے بتاتے ہیں بچپن میں اْن کی آواز لڑکیوں کی طرح باریک تھی جس کے باعث اْن کے والد اکثر اْنھیں روکا کرتے تھے کہ وہ قوالی کی طرف نہ آئیں مگر نصرت نے وقت کے ساتھ ساتھ محنت کر کے اس فن میں مہارت حاصل کی اور سْروں کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔نصرت فتح علی خان کو دْنیا کے نقشے پر ایک منفرد قوال کے طور پر مشہور کرنے میں گھنٹہ گھر کے امین پور بازار میں قائم رحمت گرامو فون ہاؤس اور دربار بابا لسوڑی شاہ کا بہت اہم کردار ہے۔ رحمت گرامو فون ہاؤس 1949ء میں امین پور بازار میں قائم ہوا جہاں 1975ء میں نصرت فتح علی خان کی پہلی قوالی “یاداں وچھڑے سجن دیاں آئیاں” کی ریکارڈنگ ہوئی۔ یہ ہی قوالی بعد میں نصرت کی وجہ شہرت بنی۔
رحمت گراموفون کے مالک چالیس سالہ محمد اسد نے سجاگ کو بتایا کہ 1964ء میں جب خان صاحب کے والد فتح علی خان کا انتقال ہوا تو انہوں نے باقاعدگی سے ہر محفل میں قوالی گانا شروع کر دی اور ان کے والد رحمت علی نے جب خان صاحب کو لسوڑی شاہ کے دربار میں سنا تو انہیں اپنے اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ کروانے کی پیش کش کی جسے خان صاحب نے قبول کیا او بعد ازاں اپنی زیادہ تر ریکارڈنگز یہیں سے کروائیں۔اسد کے مطابق ان کے ریکارڈنگ ہاؤس میں نصرت کی تقریباً ڈیڑھ سو قوالیوں اور گانوں کی ریکارڈنگز کی گئی ہیں۔”نصرت فتح علی خان کی قوالیوں میں ‘علی مولا علی مولا’، ‘یاداں وچھڑے سجن دیاں آئیاں’، ‘سْن چرخے دی مٹھی مٹھی کْوک’ ایسی قوالیاں ہیں جن سے ہماری دوکان نے بہت پیسا کمایا اور لوگ آج تک ہمارے پاس نصرت کی ان قوالیوں والی البمز لینے آتے ہیں۔”انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ تاریخی ہاؤس 2014ء میں بند کرنا پڑا کیونکہ اب کیسٹ ریکارڈنگ کا کام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے تاہم اب اے وی ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے نام سے ان کی دوکان چل رہی ہے جس کا شمار پاکستان کے جدید ترین اسٹوڈیوز میں ہوتا ہے۔بابا لسوڑی شاہ دربار کے سامنے برف کا پھٹہ لگانے والے ناصر جاوید نے سجاگ کو بتایا کہ وہ پچھلے تیس سال سے یہاں برف بیچ رہے ہیں اور نصرت کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔نصرت فتح علی خان نے قوالی باقاعدہ آغاز بابا لسوڑی شاہ کے دربار سے کیا تھاان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کے والد کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنی قوالی اس دربار سے شروع کی جہاں انہوں نے سب سے پہلے ‘علی مولا علی مولا’ قوالی پڑھی۔ان کے مطابق نصرت نے دنیا میں مشہور ہونے کے باوجود اس دربار کو نہیں چھوڑا اور پوری پوری رات یہاں پر قوالی پڑھا کرتے تھے۔دربار پر موجود ستر سالہ محمد خالق نے سجاگ کو بتایا کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے باقاعدگی کے ساتھ دربار پر حاضری دے رہے ہیں۔”بابا لسوڑی شاہ کا عرس ہر سال سات سے دس مارچ تک ہوتا ہے اور خان صاحب اپنی زندگی میں ہر سال یہاں حاضری دینے آتے تھے۔”ان کے مطابق نصرت فتح علی خان سات مارچ کو پوری رات قوالی گاتے پھر اگلے دن صبح دربار کے غسل کے وقت قوالی گاتے اور آخر میں اپنے ہاتھوں سے دربار پر چادر چڑھایا کرتے تھے۔محمد خالق کے مطابق نصرت کو سننے کے لیے لوگ سیدھا اسی دربار پر آتے کیونکہ انہیں علم تھا کہ نصرت اسی دربار میں کسی کونے میں بیٹھے گْن گْنا رہے ہوں گے اور جب سے نصرت نے اس دربار کے عرس پر حاضری دینی شروع کی تب سے ہر سال لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور اْن کے مرتے دم تک ہوتا ہی گیا۔شہنشاہِ قوالی استاد نصرت فتح علی خان 16 اگست 1997ء کو صرف اڑتالیس سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے لیکن ان کے جانے کا غم پہلے روز کی طرح آج بھی تازہ ہے۔
’’شہنشاہ قولی کی 19 ویں برسی‘‘
16
اگست 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں