اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)زحل اور مشتری آج شام ایک ساتھ آسمان پر قریب ترین فاصلے پر نظر آئیں گے۔ماہر فلکیات ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق زحل اور مشتری ان دنوں زمین سے قریب ہیں۔ 21 دسمبر کو یہ دونوں سیارے ایک ساتھ آسمان پر قریب ترین فاصلے پر نظر آئیں گے۔
دونوں سیاروں کے قریب اور ساتھ نظر آنے کو گریٹ کنجکشں کہا جاتا ہے۔ دسمبر میں ہونے والی گریٹ کنجکشں 1623 کے بعد قریب ترین فاصلے پر ہوگی۔گریٹ کنجکشں ہر 20 سال بعد ہوتی ہے۔ 2000 کے بعد دونوں سیارے اب قریب آرہے ہیں۔دوسری جانب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آسمان پر مشتری اور زحل میں فاصلے کم ہورہے ہیں اور قربتیں بڑھ رہی ہیں جبکہ 16 دسمبر سے 25 دسمبر تک یہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے اتنے قریب نظر آئیں گے کہ جتنے آج سے 800 سال پہلے دکھائی دیئے تھے۔ یعنی یہ واقعہ فلکیات کے نایاب ترین واقعات میں سے ایک ہے۔علاوہ ازیں یہ منظر ان ملکوں اور علاقوں میں زیادہ واضح طور پر دیکھا جائے گا جو خط استوا سے زیادہ قریب ہیں۔ پاکستان بھی ان ہی ممالک میں سے ایک ہے۔ان علاقوں میں سورج غروب ہونے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد تک مشتری اور زحل کو مغربی افق کے آس پاس دیکھا جاسکے اور اس قدرتی نظارے کا لطف اٹھایا جاسکے گا۔اگر آپ فلکیات اور خاص طور پر
فلکیاتی عکاسی کے شوقین ہیں تو یہ خبر یقینا آپ کیلئے بہت اہم ہے۔ 16 سے 25 دسمبر تک اپنی دوربینیں اور کیمرے تیار رکھیے گا کیونکہ مارچ 2080 تک زحل اور مشتری ایک دوسرے سے اتنے قریب نظر نہیں آئیں گے؛ اور اس کے بعد ایسا دوسرا منظر 2400 میں ہی دکھائی دے گا،۔
ماہرین کے مطابق، 16 سے 25 دسمبر تک آسمان میں مشتری اور زحل کا ظاہری فاصلہ پورے چاند کی چوڑائی (قطر یعنی ڈایامیٹر) کے صرف پانچویں حصے (20 فیصد) کے لگ بھگ ہوگا۔21 دسمبر کو یہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے جبکہ
25 دسمبر کے بعد یہ ایک بار پھر ایک دوسرے سے دور ہونے لگیں گے۔بتاتے چلیں کہ مشتری اور زحل کے قریب آنے کا منظر صرف زمین سے ایسا دکھائی دیتا ہے ورنہ درحقیقت یہ دونوں سیارے اپنے لگے بندھے مداروں (orbits) میں رہتے ہوئے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مدار میں گردش کے دوران مختلف سیاروں کا درمیانی فاصلہ کم زیادہ ہونا ایک ایسا معمول ہے جو گزشتہ اربوں سال سے جاری ہے۔تقریباً ہر 20 سال میں ایک موقع ایسا آتا ہے جب نظامِ شمسی کے باقی سیارے ہماری زمین سے بالکل سیدھ میں آجاتے ہیں اور آسمان میں ایک سیدھی
لکیر کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔اس سال بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے جو درحقیقت ایک فلکیاتی معمول ہے، جس کا کسی کی قسمت یا بدقسمتی سے کوئی تعلق نہیں۔دوسری جانب بی بی سی کے مطابق کچھ ماہرین فلکیات اور مذہبی زعما یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ستارہ بیت اللحم کی واپسی ہے۔
ورجینیا کے فِروم کالج میں مذاہب کی استاد پروفیسر ایرک ایم وینڈن ایکل کے ایک آن لائن مضمون کے مطابق ان دو سیاروں کے ملاپ کے وقت نے بہت سی قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا ہے کہ کیا یہ وہی فلکیاتی منظر ہے جس کے بارے میں بائبل میں بھی ذکر ملتا ہے کہ اس ستارے کی وجہ سے
دانا لوگ حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت مریم علیہ السلام اور ان کے نوزائیدہ بچے حضرت عیسی علیہ السلام کی جانب متوجہ ہوئے۔یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ قدیم قیاس آرائی ہے۔ یہ نظریہ کہ مشتری اور زحل کا ملاپ دراصل ایک معجزاتی ستارہ ہو سکتا ہے پہلی بار 17 ویں صدی میں
جرمنی کے ایک ماہر فلکیات اور ماہر ریاضی دان جوہانس کیپلر نے پیش کیا تھا۔ڈاکٹر کیرولین کرافورڈ کے مطابق 2000 سال قبل لوگ رات کے وقت آسمان پر ہونے والے واقعات سے متعلق خبر رکھتے تھے۔ لہذا یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے کہ بیت اللحم کا 2000 سال پرانا معجزاتی ستارہ سیاروں
کا اسی قسم کا ملاپ ہو۔چونکہ سیارے سورج کے گرد اپنے مدار میں سفر کرتے ہیں تو ایسے ملاپ کوئی انہونی بات نہیں، تاہم ان دو سیاروں کا ملاپ ایک خاص موقع ہے۔ مانچسٹر یونیورسٹی کے ایسٹرو فزکس کے پروفیسر ٹم او برائین نے بی بی سی کو بتایا کہ سیاروں کے ملاپ کا نظارہ ایک خاص
بات ہوتی ہے۔ اور ایسا ملاپ اکثر ہوتا رہتا ہے تاہم ان دو سیاروں کا ایک دوسرے سے ملاپ ایک بہت قابل ذکر بات ہے۔یہ دو سیارے جو درحقیقت ہمارے نظامِ شمسی کے سب سے بڑے اور سب سے چمکدار اجسام میں سے ہیں، 800 سال سے ایک دوسرے کے اتنے قریب نہیں آئے ہیں۔آسٹرولوجر کے مطابق یہ گریٹ کنجکشں برج دلو میں ہونے جارہی ہے ،جو ہوا کا خانہ ہے اور یہ اگلے دو سو سال کیلئے زمین پر بہت بڑی تبدیلی کی نشانی ہے ۔