اسلام آباد(ویب ڈیسک)کینیڈا میں سائنسدانوں نے نیند کی کمی سے دماغ پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں معلومات کے لیے عالمی سطح پر اب تک کی سب سے بڑی تحقیق کا آغاز کیا ہے۔اونٹاریو میں ‘ویسٹرن یونیورسٹی’ کی ایک ٹیم چاہتی ہے کہ اس مقصد سے دنیا بھر سے رضاکار دماغی تجزیے کے لیے اپنا آن لائن اندارج کروائیں۔
اس میں خصوصی طور پر تیار کیے گئے کمپیوٹر گیمز کے ذریعے سمجھ بوجھ اور فیصلہ سازی جیسی مہارت کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔برطانیہ کے معروف نیورو سائنٹسٹ پروفیسر ایڈریئن اوین لندن میں ‘برین اینڈ مائنڈ انسٹیٹیوٹ’ میں کام کرتے ہیں اور وہی اس تحقیق کی سربراہی کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے: ‘ہم سب یہ جانتے ہیں کہ کم سونے سے ہم کیسا محسوس کرتے ہیں لیکن اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں کہ اس کے دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ نیند کی کمی ہماری سمجھ بوجھ، یادداشت اور توجہ دینے پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔’یہ تحقیقاتی ٹیم کمپیوٹر گیمز کے استعمال سے ملنے والے نتائج کو ایک دوسرے سے ملا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ اس میں شامل ہونے والے لوگوں نے کتنی نیند لی تھی۔کتنا سونا ضروری ہے یہ ہر شخص کی اپنی ضرورت پر منحصر ہے لیکن اگر کافی لوگ اس تحقیق میں شامل ہوں تو ممکن ہے کہ سائنسدان اس سے یہ معلومات اخذ کر سکیں کہ دماغ کے مکمل کام کرنے کی صلاحیت کے لیے کتنے گھنٹوں کی نیند ضروری ہے۔ہم اپنی زندگی کا تقریباً ایک تہائی حصہ سونے میں گزار دیتے ہیں اور یہ ہماری زندگی کے لیے اسی طرح ضروری بھی ہے جیسے جینے کے لیے کھانا پینا اور سانس لینے کے ہوا۔ لیکن موجودہ دور میں زندگی 24 گھنٹے چلتی رہتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پہلے سے کم سونے لگے ہیں۔گذشتہ ماہ اس بارے میں ایک
سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے مضمون میں اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ اگر کوئی نیند نہ آنے کے مسئلے کا شکار ہو تو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس سے دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس مضمون میں کہا گيا تھا کہ صنعتی دور میں لوگوں کی نیند میں کمی آئی ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔