امریکہ (نیوز ڈیسک)امریکی محکمہ دفاع سے وابستہ سائنس داں ایسی مائیکرو چِپ تخلیق کرنے کے لیے تحقیق اور تجربات میں مصروف ہیں جس میں نہ صرف انسان جیسی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجینس) موجود ہو بلکہ جسامت میں بھی اتنی کم ہو کہ اسے مختلف موبائل ڈیوائسز میں نصب کیا جاسکے۔ اس ڈیوائس کو Eyeriss کا نام دیا گیا ہے۔ اس ننھی سی چِپ میں 168 کورز (cores) ہوں گی۔ اس کا انحصار ’نیورل نیٹ ورکس‘ پر ہوگا۔ ان نیٹ ورکس کو انسانی دماغ کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے۔”آئرِس“ کا موازنہ مختلف اسمارٹ فونز میں استعمال ہونے والی پروسیسنگ چپس سے کیا جائے تو یہ چپس کواڈ کور یعنی چار کورز پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں آئرِس میں 168 کورز ہوں گی۔ اس بات سے اسمارٹ مشینوں اور کمپیوٹر ہارڈ ویئر ٹیکنالوجی میں دل چسپی رکھنے والے افراد بخوبی اس آئیڈیا کے تحت تیار ہونے والی چِپ کی فعالیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا اصل مقصد امریکی فوج کو میدان جنگ میں زیادہ سے زیادہ کام یاب بنانا ہے۔ فوج اس چِپ کو ڈرونز اور روبوٹوں میں استعمال کرے گی اور اس کی مدد سے یہ مشینیں انسانوں کی طرح سوچنے سمجھنے کے قابل ہوسکیں گی۔ یہ مصنوعی ذہانت انھیں حالات کی مناسبت سے فیصلے کرنے میں مدد دے گی۔واضح رہے کہ امریکا ڈرون اور روبوٹس کے حوالے سے مسلسل تجربات کے بعد مختلف جدید مشینیں اور آلات تیار کر رہا ہے تاکہ اگلے برسوں میں کسی عسکری محاذ پر انسانی (فوجیوں) جانوں کا ضیاع کم سے کم ہو اور ان مشینوں یا آلات کی مدد سے اسے دشمن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ اور نہایت محفوظ طریقے سے معلومات حاصل ہوسکیں۔ان مشینوں کو میدان جنگ کی صورت حال کی مناسبت سے بروقت اور فوری فیصلے کرنے کا ’اہل‘ بنایا جائے گا۔ دشمن سے نبردآزما ہونے اور اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے مصنوعی ذہانت کی حامل مذکورہ چِپ کسی انسان کی محتاج نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر آئرس سے لیس ڈرون زمین پر کوئی ہدف دیکھ کر اس سے فوجیوں کو فوری طور پر خبردار کرسکتا ہے۔ اس طرح یہ جاسوس مصنوعی سیاروں اور جاسوسی کے دوسرے آلات کی نسبت زیادہ موثر اور مفید ثابت ہوگا۔دفاعی ماہرین کے مطابق عسکری میدان میں دشمن کی موجودگی یا کسی ہدف سے فوری باخبر ہونا جدید دور میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس سلسلے میں امریکی ماہرین مختلف آئیڈیاز پر مسلسل کام کررہے ہیں۔ انسانوں کی طرح سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری کو بعض سائنس دانوں نے بقائے انسانی کے لیے خطرہ بھی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل مصنوعی ذہانت اور ان کا مشینوں کے ذریعے اگر غلط استعمال کیا جانے لگا تو اگلے برسوں میں انسانوں کے لیے ہی خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اب جو شکل اختیار کررہی ہے، اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کوئی ایجاد اور تخلیق انسان سے بھی برتر ثابت ہو سکتی ہے۔میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے امریکی محکمہ دفاع کے ذیلی ادارے ڈارپا کے تعاون سے آئرس کا آزمائشی نمونہ تیار کرلیا ہے۔ آئرس میں نیورل نیٹ ورکس کی تخلیق کا کام Nvidia کے انجنیئروں نے انجام دیا ہے۔ نیورل نیٹ ورکس عام طور پر گرافکس پروسیسنگ یونٹس کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔ اسکرین کی حامل کمپیوٹنگ ڈیوائسز میں یہی چپس نصب ہوتی ہیں۔ انسانی دماغ نما یہ آرٹیفیشل انٹیلجینس سسٹم بڑی جسامت کے ملٹی کور گرافکس پروسیسر پر مشتمل ہوتا ہے جسے موبائل ڈیوائسز کے لیے بنانا اب تک ممکن نہیں ہوسکا تھا۔حالیہ تحقیق وہ پہلا موقع ہے جب سائنس داں ان چِپس کو اس حد تک سکیڑنے میں کام یاب ہوئے ہیں کہ انھیں چھوٹی ڈیوائسزمیں استعمال کیا جاسکے۔ ایم آئی ٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ ان کی تیارکردہ آئرس موبائل فون کے گرافک پروسیسنگ یونٹس سے دس گنا زیادہ تیز ہے، اور اس کی مدد سے اسمارٹ فون ڈیٹا کو پروسیسنگ کے ذریعے کلاو¿ڈ پر اپ لوڈ کرنے کے بجائے طاقت وَر انٹیلجینس الگورتھمز چلا کر خود پروسیس کرسکتے ہیں۔ آئرس کے ذریعے ایپس زیادہ تیزی سے چلائی جاسکیں گی کیوں کہ اس کی اپنی میموری ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ مستقبل کے اسمارٹ فونز انٹرنیٹ پر بہت زیادہ انحصار نہیں کریں گے