جکارتہ(نیوز ڈیسک) جہاں ہم جنس پرستی کی لعنت کو بیشتر مغربی ممالک میں قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے وہیں اسلامی ممالک خود کو اس سے بچانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ انڈونیشیاءنے اس حوالے سے انتہائی اہم قدم اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا ویب سائٹس اور چیٹنگ و میسجنگ کی ایپلی کیشنز میں موجود ہم جنس پرستی کے ”ایموجی“(Emoji) اور سٹیکرز(Stickers) پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ایک میسجنگ ایپلی کیشن لائن(Line)میں ہم جنس پرستی پر مبنی ایموجی اور سٹیکرز کی موجودگی پرانڈونیشیاءکے سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا جس پر انڈونیشیاءحکومت نے ان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ ہم جنس پرستی کے خلاف انڈونیشیاءمیں کوئی واضح قانون موجود نہیں ہے اور انڈونیشین عوام مذہبی معاملے میں خاصے اعتدال پسند ہیں لیکن مذکورہ ایپلی کیشنز میں اس طرح کے ایموجی اور سٹیکرز متعارف کروائے جانے پر انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔صارفین نے واٹس ایپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس میں بھی ایسے ایموجی اور سٹیکرز موجود ہیں۔ برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ کی رپورٹ کے مطابق ایپلی کیشن لائن کی انتظامیہ کی طرف سے بیان سامنے آیا ہے کہ ”ہم نے عوام کے احتجاج کے بعد ایپلی کیشن کے مقامی سٹور سے تمام ہم جنس پرستی پر مبنی ایموجی اور سٹیکرز ہٹا دیئے ہیں۔“ انڈونیشیاءکی وزارت کمیونیکیشن کے ترجمان اسماعیل کیویڈو کا کہنا تھا کہ ”ہم فیس بک کو کہیں گے کہ وہ بھی لائن کی طرح واٹس ایپ سے یہ ایموجی اور سٹیکرز ہٹادے۔سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز کو مختلف ممالک کی مقامی ثقافت اور رسوم و روایات کا احترام کرنا چاہیے۔“ایک طرح انڈونیشین عوام اس لعنت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور دوسری طرف انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں نے انڈونیشین عوام اور حکومت کے اس قابل ستائش اقدام پرواویلا مچانا شروع کر دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے انڈونیشین صدر جوکووی ویڈوڈو سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں ہم جنس پرست مردوخواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جوکووی ویڈوڈو کو خط لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”حکومت کو اپنے ان عہدیداروں کی حوصلہ شکنی اورکھلے عام مذمت کرنی چاہیے جنہوں نے ہم جنس پرستوں کے خلاف امتیازی بیانات دیئے ہیں۔“