نیویارک(نیوز ڈیسک) یوں تو زلزلے جہاں آتے ہیں وہاں تباہی اور ہلاکتیں لے کرآتے ہیں لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ شدید زلزلے نہ صرف جہاں آتے ہیں اسے متاثر کرتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد 6 ہزار کلومیٹر تک کے علاقے کو کمزور کردیتے ہیں اور اس کی لچک میں تبدیلی پید اکردیتے ہیں۔امریکا میں کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زمین کا اندورنی حصہ ایک جڑے ہوئے سسٹم کی طرح کام کرتا ہے اس لیے ایک زلزلہ جب آتا ہے تو وہ کئی ہزار کلو میٹر تک اپنے اثرات چھوڑتا ہے اور زمین کی سطح سے 35 کلو میٹر نیچے موجود بیرونی سطح ’کرسٹ‘ کو کچھ ہفتوں تک کمزور کردیتا ہے۔ یونیورسٹی آف میساچوسس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ڈیپارٹمنٹ آف ارتھ اور ماحولیاتی اور پلینٹری سائنس کے پروفیسر کیون چاو¿ کا کہنا ہے کہ زلزلے زمین کی کرسٹ کی لچکدار خصوصیات میں 6 ہزار کلومیٹر تک کے علاقے میں بنیادی تبدیلیاں لاتے ہیں اوراس کی دباو¿ کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو کچھ ہفتوں تک کمزور کردیتے ہیں جب کہ زلزلے کی سطحی موج جب ایسے ہی ایک اور فالٹ ریجن کے قریب سے گزرتی ہے تو سطح کی رگڑ، زمین کی سطح کو جوڑ کر رکھنے والی رگڑ کی خصوصیات اوردباو¿ کے خلاف مزاحمت کرنے والی لچک کے درمیان توازن کو تبدیل کردیتی ہے اور اگر زیادہ دباو¿ کے ساتھ یہ فالٹ ’سرفیس موج‘ کو روکنے میں ناکام ہوجائے تو اس میں مزید دباو¿ جمع ہوجاتا ہے تو یہاں کسی بھی وقت زلزلہ رونما ہوسکتا ہے۔جنرل سائنس میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق سائنس دانوں نے بحرہند میں شمالی سماٹرا کے قریب آنے والے 2012 کے 8.6 شدت کے زلزلے کا مطالعہ اسٹرین میٹر ریڈنگ سے کیا جس کے فوری بعد جاپان میں 5.5 شدت کا زلزلہ آیا تھا اور اس کے نتائج میں بڑے زلزلوں کے بعد چھوٹے زلزلوں اور زلزلوں کی دوسرے علاقے کی جانب ہجرت پر بحث کی گئی جس سے یہ بات سامنے ا?ئی کہ چھوٹے زلزلے بڑے زلزلوں کی ہی وجہ سے رونما ہوئے۔چاو¿ کا کہنا تھا کہ جب بحر ہند میں زیادہ شدت کا زلزلہ آیا تو اس کی موج جاپان کے شمال مشرق سے گزری جس سے زلزلہ پیدا کرنے والی سرگرمی رونما ہوئی اور کم شدت کا زلزلہ آیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب فالٹ دباو¿ کو روکنے میں ناکام ہوجائے تو اسں جگہ خلا کم ہونے کی وجہ سے کرسٹ دبنے لگتی ہے اوریوں زلزلہ آجاتا ہے۔