اسلام آباد(نیوز ڈیسک )اہرامِ مصر کے راز جاننے کے لیے ایک پیمانے پر سائنسی تحقیق کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ فرانس، جاپان، کینیڈا اور مصر کے ماہرین اس تحقیق میں حصہ لے رہے ہیں۔ چار مقبروں کی جانچ پڑتال کے لیے انتہائی طاقت ور انفرا ریڈ لہروں سمیت جدید آلات کا استعمال کر رہے ہیں۔ ماہرین یہ بھی پتہ لگائیں گے کہ اہراموں کو بنایا کیسے گیا تھا۔ خیال رہے کہ مصری حکام نے حال ہی میں اسی قسم کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ملکہ نفرتیتی کی گمشدہ قبر کی کھوج لگانے کی اجازت دی تھی۔ اس قبر کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طوتن خامن کے مقبرے کی دیوار کے پیچھے موجود ہے۔ زیرِ تحقیق اہرام ساڑھے چار ہزار سال قدیم ہیں خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سائنس دان چاروں اہراموں کی سکینگ کا آغاز اگلے ماہ سے کریں گے جس سے پتہ چلایا جائے گا کہ وہاں اہراموں کی سطح کے نتیجے کیا ہے۔ آثارِ قدیمہ کے وزیر ممدوح المیتے کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ قاہرہ کے جنوب میں شروع ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے داشور میں بینٹ نامی اہرام کی سکینگ کی جائے گی اس کے بعد اس کے قریب ہی واقع اہرام جو سرخ رنگ سے موسوم ہے کا جائزہ لیا جائے گا جبکہ بعد میں سطح مرتفع غزا میں موجود دو وسیع ترین اہراموں کیوپس اور کیفرین کی سکینگ کی جائے گی۔ یہ اہرام ساڑھے چار ہزار سال قدیم ہیں۔