پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

زمین کے اندر سے ساڑھے 12 سال پرانے خار پشت کے آثاردریافت کرلئے گئے

datetime 17  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک )سائنسدانوں کو زمین کے اندر سے ساڑھے 12 سال پرانے خار پشت کے آثار ملے ہیں، جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی خوبصورت ریشمی بالوں کا گولہ تھا۔یہ قدیم مخلوق بہت عمدگی سے فاسل کی شکل میں محفوظ ہو گئی تھی اور یہ ریڑھ کی ہڈی والے جانور خارپشت کی اب تک دریافت ہونے والی سب سے قدیم نسل ہے۔یہ تحقیق نیچر نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔اس مخلوق کا نام سپائنولیسٹیز زینارتھروسس رکھا گیا ہے اور اسے میڈرڈ کی آٹونومس یونیورسٹی کی تحقیق کار اینجلا بسکلیونی اور ان کی ٹیم نے وسطی سپین کے علاقے لاس ہویاس کیوری میں کھدائی کے دوران دریافت کیا گیا۔تحقیق کے شریک مصنف امریکہ کی یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈاکٹر ڑی شی لو کا کہنا ہے کہ ’سپائنولیسٹیز ایک شاندار دریافت ہے۔تحقیق کے شریک مصنف امریکہ کی یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈاکٹر ڑی شی لو کا کہنا ہے کہ ’سپائنولیسٹیز ایک شاندار دریافت ہے۔یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ اتنا قدیم ہونے کے باوجود بھی اس جانور کی جلد اور بال چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ساتھ محفوظ تھیں۔’اس جانور کے ذریعے موجودہ دور کے ممالیہ جانوروں کی جلد اور بالوں کی مختلف اقسام کے بارے میں مکمل معلومات ملتی ہے۔اس جانور کے جگر، پھیپھڑے اور پردہ شکم جوں کے توں تھے، اس ہی طرح اس کے جسم پر ریشمی بال، ریڑھ کی ہڈی اور جلد پر موجود چھلکے بھی صحیح حالت میں تھے۔جرمنی کی یونیورسٹی آف بون کے پروفیسر ٹامس مارٹن وضاحت کرتے ہیں کہ ’کھدائی کے دوران عام طور پر آپ کو ہڈیاں یا ڈھانچے ملتے ہیں اور ہمیں بہت سے جانوروں کے آثار ڈھانچوں کی صورت ہی میں ملے ہیں۔ لیکن اس طرح جسم کے نرم حصے اتنی تفصیل کے ساتھ کبھی نہیں ملے۔اس مخلوق کا حجم چوہے جتنا اور وزن تقریباً 50 سے 70 گرام تھا۔اس کے کان بڑے بڑے اور منہ نوکیلا تھا، کمر پر چھوٹی ایال اور پیٹ نرم بالوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ زیادہ تر زمین ہی پر رہتے تھے اور کیڑے مکوڑے کھاتے تھے۔پروفیسر مارٹن کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ہی پیارا جانور تھا جو موجودہ دور کے چوہوں کی طرح لگتا ہے۔ان تمام قابل ستائش خصوصیات کے ساتھ سپائنولیسٹیز کا ایک دفاعی پہلو بھی ہے۔اس کی کمر کے نچلے حصے پر چھوٹے چھوٹے کانٹے اور سخت چھلکے موجود تھے، جن کے ذریعے وہ شکاری جانوروں سے اپنی حفاطت کرتا تھا۔پروفیسر مارٹن نے بتایا کہ ’اگر کوئی جانور حملہ کرنے کے دوران اس کی کمر پر کاٹتا تو کمر پر موجود کانٹے الگ ہو کر شکاری جانور کے منہ میں چلے جاتے، اور جب تک شکاری جانور اس صورت حال کو سمجھتا سپائنولیسٹیز وہاں سے فرار ہو جاتا۔اس پر حملہ کرنے والے جانور ممکنہ طور پر چھوٹے ڈائنوسار تھے جن کے آثار سپین کے اس ہی مقام سے نکلے تھے جہاں سے سپائنولیسٹیز کے۔اس مقام سے اب تک مگرمچھوں، چھپکلیوں کی اقسام، مینڈکوں، اور پرندوں کے آثار بھی برآمد ہو چکے ہیں۔آج وسطی سپین ایک گرم اور خشک علاقہ ہے، لیکن ساڑھے 12 کروڑ سال قبل یہ ایک گرم مرطوب اور ہرا بھرا خطہ تھا۔پروفیسر مارٹن نے کہا کہ یہ جانور ایک دلدلی زمین پر رہتے تھے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…