اسلام آباد (نیوزڈیسک ) ٹیکنالوجی کی دنیا میں امریکہ اور یورپ کے بیچ رقابت بہت پرانی ہے۔ یورپ کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی کمپنیز یورپی اصول و ضوابط کے تحت چلیں، امریکیوں کو یہ پالیسی قبول نہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کے بیچ ٹیکنالوجی کے معاملات پر کھینچا تانی جاری رہتی ہے۔ دونوں کے بیچ اختلافات کا تازہ ترین شکار فیس بک ہے۔یورپی یونین کا کہنا ہے کہ فیس بک اور کچھ دیگر کمپنیز، حریف کمپنیز کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا باعث ہیں اور یہ ناجائز طریقوں سے اپنی خدمات کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ واٹس ایپ اور فیس بک میسجنگ سروسز کو آپس میں ملانے سے فیس بک حریف کمپنیز کی ایپس کیخلاف ایک اجارہ داری قائم کررہا ہے۔
اس وقت کم از کم بھی یورپ کی پانچ کمپنیزجن کا کام ٹیکنالوجی سے متعلقہ امور پر نگاہ رکھنا اور انہیں یورپی اصول کے مطابق رکھنا ہے، فیس بک کی پرائیویسی سیٹنگز پر پوچھ گچھ کرہی ہیں۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ ماہ اس معاملے پر یورپی اعلیٰ عدالت فیس بک کے امریکہ اور یورپ کے بیچ ڈیٹا کے ٹرانسفر پر پابندی بھی لگا سکتی ہے۔ اس سے قبل ایسے ہی الزام انٹیل اور مائیکروسافٹ پر لگائے گئے۔ یورپی عتاب کا تازہ ترین نشانہ گوگل بنا جس پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنی کچھ مصنوعات کو فروغ دینے کیلئے ناجائز طریقے استعمال کرتا ہے جس سے حریف کمپنیز کو نقصان ہوتا ہے۔یورپی یونین اگر اپنے نئے شکار یعنی فیس بک کو صحیح معنوں میں قابو کرنے میں کامیاب رہی تو ایسے میں فیس بک کا انٹرنیٹ کی ” ون سٹاپ شاپ“ بننے کا خواب ادھورا رہ سکتا ہے۔ فیس بک کی خواہش ہے کہ وہ بیک وقت رابطوں، اشاعت اور تشہیری مہم کیلئے استعمال کیئے جانے کے قابل پلیٹ فارم کے طور پر خود کو منوا سکے۔ اس بارے میں سینٹر آن ریگولیشن ان آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر سیرافینو البیٹ کہتے ہیں کہ جو ادارہ جتنا بڑا ہوگا، اسے اسی قدر ذمہ داری کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔ واضح رہے کہ یورپ صارفین کی ذاتی معلومات کے حوالے سے دیگر خطوں کے مقابلے میں بے حد سخت قوانین رکھتا ہے اور اسے فیس بک یوزرز سے متعلقہ معلومات کے اکھٹا کرنے اور انہیں استعمال کرنے کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ فی الوقت اس معاملے میں جو ممالک زیادہ تیزی دکھا رہے ہیں ان میں جرمنی، فرانس، بیلجئم شامل ہیں اور اگر ان ممالک کی تحقیقات میں فیس بک قصور وار ثابت ہوئی تو اسے بھاری جرمانوں یا یورپ میں آپریشن محدود کرنے کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ ایسا ہوا تو یہ فیس بک کیلئے کسی دھچکے سے کم نہ ہوگا کیونکہ فی الوقت فیس بک یوزرز کی سب سے زیادہ تعداد یورپ سے تعلق رکھتی ہے۔
یورپ فیس بک پالیسیز کیخلاف اکھٹا؛ جرمانے اور پابندی کی سزا کا امکان
26
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں